• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں ایسے ”مہربانوں“ کی کوئی کمی نہیں جو متواتر یہ باور کرانے میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمان دھرتی پر بوجھ ہیں۔ ان اصحاب دانش کے علم فکر کی تان یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ تمہارے آباوٴاجداد بھی تن آساں اور غبی تھے اور تم بھی جاہل‘ اجڈ اور گنوار ہو۔ ہمارے یہ ”خیر خواہ“ سائنس و ٹیکنالوجی کو یورپ کی میراث ثابت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور مسلمانوں پر لعن طعن کرنے کو اپنا فرض منصبی خیال کرتے ہیں۔ ان اپنوں سے کیا گلہ کریں کہ سنگ زنی کا عمل محض ان تک ہی پر موقوف و محدود نہیں بلکہ مسلمان ہر چوراہے پر ٹکٹکی سے بندھے ہیں اور جس کا دل چاہتا ہے بلا جھجھک پتھر مارنے لگتا ہے یہ تنقید سراسر بے بنیاد اور بے جا بھی نہیں کیونکہ مسلمان علم سے دور نہیں‘ اپنی جہالت پر مفرور ہیں‘ قرض کی مے پی کر مست الست ہیں‘ دنیا کے ہر میدان میں زیردست ہیں‘ اپنی نادانیوں اور حماقتوں کے سبب نحیف و ناتواں ہیں اور بقول شخصے زمانہ ہمیشہ کمزور پر ہی ظلم ڈھاتا ہے۔ ہم سے بڑھ کر کمزور کون ہو سکتا ہے جن کے وکلاء نے فریق مخالف سے سازباز کر رکھی ہے‘ گواہان ہنوز عالم طفلی میں ہیں اور خود مدعی بھی مرور وقت سے خاموش اور گنگ ہیں۔ لیکن میری طالب علمانہ تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ ”جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی“ ہم راستہ بھٹک گئے‘ اپنی بصیرت جھٹک گئے اور آسمان سے گرنے کے بعد کھجور میں اٹک گئے مگر کبھی ہمارے علم کی روشنی سے اکناف عالم بقہٴ نور تھا‘ ہم نے سائنسی علوم کو نئی جہت بخشی‘ فلسفے کو ابن خلدون جیسے نابغہٴ روزگار عطاکئے‘ تاریخ کو طبری و واقدی اور مسعودی جیسے موٴرخ دیئے‘ ابن الہیثم جیسے ماہرین بصریات‘ فرغانی جیسے ماہرین فلکیات‘ الفارابی جیسے ماہرین عمرانیات‘ عمرخیام جیسے ریاضی دان‘ جابر بن حیان جیسے کیمیا دان‘ بو علی سینا جیسے ماہرین طب‘ الخوار زمی جیسے منجم اور یعقوب الکندی جیسے مہندس ہمارے ہی قبیلے کے چشم وچراغ تھے۔ وقت نے وفا کی تو انشاء اللہ میں رفتہ رفتہ مسلمانوں کی سائنسی خدمات اور ایجادات سامنے لانے کی کوشش کروں گا تاکہ یہ حقیقت مترشح ہو جائے کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کبھی مہٴ کامل ہوا کرتا تھا اور حالات نے انگڑائی لی تو صحبت زاغ سے کجلائے شاہینوں میں عقابی روح پھر سے بیدار ہو گی اور یہ نوجوان پھر سے ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔
ٹیکنالوجی زقندیں بھرتی آگے ہی بڑھتی چلی جاتی ہے اور نت نئی ایجادات سے ماضی کے کمالات پر اوس پڑتی چلی جاتی ہے مثلاً جب ہم موبائل فون ‘ آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ پر پوری کائنات کو سمٹ کر انگلیوں کی پوروں میں آتا دیکھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ کبھی گرامو فون ہوا کرتے تھے‘ کمپیوٹر پورے پورے کمرے میں سما جاتے تھے‘ گھروں میں پنکھوں کی رفتار کم کرنے کیلئے جو ریگولیٹر استعمال ہوتے تھے ان کے ارتقاء کا عمل ہی بہت دلچسپ ہے اگر آج کل کے بچوں کو پرانے جہازی سائز کے ریگولیٹر دکھائے جائیں تو ان کی ہنسی چھوٹ جائے لیکن کبھی یہی بڑے بڑے ریگولیٹر افادیت کے لحاظ سے نہایت کار آمد محسوس ہوتے تھے۔ آج کل پیغام رسانی کے جدید ذرائع دستیاب ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر پل پل کی خبریں نشر ہوتی ہیں‘ ایف ایم کے ذریعے اطلاعات پہنچتی ہیں‘ اخبارات اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں‘ اس کے علاوہ ای میل‘ موبائل فون پر ٹیکسٹ میسج‘ سماجی ویب سائٹوں پر ٹویٹس کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے مگر جب یہ سب ذرائع نہیں تھے تو اہم خبریں اور ضروری اطلاعات کیسے پہنچتی تھیں؟؟؟ زمانہ قدیم میں یہ کام کبوتروں سے لیا جاتا تھا ہمارے ہاں شعراء کی کائنات تخیل میں عاشق و معشوق کے مابین رابطے کیلئے کبوتر کو بطور قاصد استعمال کرنے کا رجحان تو رہا ہے مگر پیغام رسانی کے اس ذریعے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ماضی میں کبوتروں کے ذریعے خبروں کی ترسیل کا یہ عالم تھا کہ نپولین کو واٹر لو کے میدان میں شکست کی خبرانگلینڈ پہنچی ۔ امریکی صدر ابراہم لنکن کے قتل کی خبر ایک کبوتر کے توسط سے دنیا بھر میں عام ہوئی ۔امریکی جریدے ”سائنٹیفک امریکن“ نے اس حوالے سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کبوتروں کے ذریعے پیغامات کی ترسیل کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے جب شام اور مصر یورپ کے متواتر حملوں کی زد میں تھے تو نور الدین زنگی نے کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی کی داغ بیل ڈالی۔ 567ء ہجری میں کبوتروں کو اس مقصد کیلئے تربیت دینے کا آغاز ہوا بعد ازاں مصر کے فاطمی خلفاء نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں بھی خاصی پیشرفت ہوئی مگر سب سے زیادہ ترقی بغداد کے خلیفہ الناصر الدین اللہ کے زمانے میں ہوئی جب باقاعدہ ”محکمہ کبوتر سازی“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہر قلمرو میں40 میل کے فاصلے پر چوکیاں قائم کی جاتیں جہاں ایک کاتب ہمہ وقت موجود رہتا۔ جب کوئی کبوتر خبر لے کر آتا تو اسے وہاں روک کر یہ خبر ایک تازہ دم کبوتر کے حوالے کر دی جاتی۔
اس دور میں موصل کے کبوتر پیغام رسانی کیلئے سب سے زیادہ موزوں خیال ہوتے اور ایک موصلی کبوتر کم از کم 1000 دینار میں فروخت ہوتا۔ خبر تحریر کرنے کیلئے ایک خاص قسم کا کاغذ ”ورق الطیر“ استعمال ہوتا جو وزن میں ہلکا ہوتا تھا۔ ایشیائی طرز تحریر کے برخلاف ان پیغامات میں اختصار کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی اور حفظ مراتب کے تحت القابات و آداب سے گریزکیا جاتا یہاں تک کہ بسم اللہ بھی مختصر لکھی جاتی۔ جلال الدین سیوطی کی تصنیف ”حسن المحاضرہ“ اور علامہ ابن فضل اللہ کی معتبر کتاب ”التعریف باالمصطلح الشریف“ میں کبوتروں کی نامہ بری کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور مولانا ابو الکلام آزاد نے ہندوستان کے علمی جرائد ”الہلال“ اور ”خدنگ نظر“ میں اس حوالے سے جو مضامین لکھے انہیں ڈاکٹر وہاب قیصر نے ”مولانا ابوالکلام آزاد کے سائنسی مضامین“کے عنوان سے کتابی صورت میں مرتب کر دیا ہے۔ ان تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی کا یہ نظام نہایت جدید اور سائنسی انداز میں استوار کیا گیا تھا اور نامساعد حالات میں کبوتروں کو 300 کلومیٹر تک پرواز کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ یورپی اقوام نے جدید مواصلاتی ذرائع وجود میں آنے سے پیشتر یہ تصور مسلمانوں سے مستعار لیا اور کئی صدیوں تک پیغام رسانی کا یہ سلسلہ مسلمانوں کے مرہون منت رہا۔ علامہ ابن فضل اللہ کی کتاب ”التعریف“ کے مطابق زوال کے زمانے میں بھی یہ نظام خاصا مربوط تھا۔ قاہرہ سے اسکندریہ‘ ومیاط‘ سویز اور بلیس تک 4 چوکیاں تھیں۔ غزہ کو دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لئے 4 چوکیاں تھیں جو داروہ‘ بلد الحتلیل‘ بیت المقدس‘ نابلس اور لاتک جاتی تھیں اسی طرح دمشق کے گردو نواح میں چوکیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔
فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی نے مسلمانوں کے اس تصور کو مستعار لیا اور کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی کا کام پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم میں فرانس کی فوج میں کبوتروں کی باقاعدہ ایک کور تھی جس کے تحت 28 فوجی کبوتر خانے کا کام کرتے تھے اور ہر کبوتر خانے میں ہزاروں پیغام رساں کبوتر ہوتے۔ کبوتروں کے ایک جوڑے کو جس ڈھابلی میں رکھا جاتا وہ 35 مربع فٹ پر محیط ہوتی۔ المیہ یہ ہوا کہ یورپی اقوام نے مسلمانوں کے بنیادی سائنسی تصورات کی بنیاد پر اپنی ترقی کا سنگ بنیاد رکھا اور ہم اپنی علمی ترکے اور فکری میراث سے غافل ہوتے چلے گئے۔ یورپی اقوام نے کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام لیا اور ہم شاعرانہ تمثیلات اور تلمیحات پر اکتفا کر بیٹھے بلکہ رفتہ رفتہ کبوتر سازی کے بجائے کبوتر بازی پر آ گئے لیکن میرا سوال محض یہ ہے کہ لیونارڈ و ڈاونچی کو ہزاروں ایجادات کے محض تخیل پیش کرنے پر موجد کہا جا سکتا ہے تو سلطان نور الدین زنگی کو کریڈٹ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟
تازہ ترین