• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھ سے مت کہہ، تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی میرا جی اِن دنوں بیزار ہے
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے، کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اِس کو حسرتِ دیدار ہے
میں مئی کے وسط میں اپنی بیٹی کی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کیلئے مع اپنی فیملی لاس اینجلس یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلیفورنیا آیا ہوا تھا۔ آتی دفعہ اپنے ساتھ دیوان غالب کا پاکٹ ایڈیشن جو عزیز دوست واجد جواد نے تحفتاً دیا تھا اُٹھا لایا تھا یہاں جب بھی وقت ملتا ہے انٹرنیٹ پر روزنامہ جنگ پڑھتا ہوں اور پھر دیوان غالب کا مطالعہ کرتا ہوں۔ مندرجہ بالا قطعہ پڑھا تو اپنے وطن کے سیاسی قائدین اور عوام کے رشتے کے تناظر میں رکھ کر دیکھا تو دل کو لگا، سوچا فوراً قارئین کی نظر کردوں۔
سیاسی قائدین 11 مئی سے پہلے گلی گلی کوچے کوچے میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ بڑے رہنما بڑے بڑے جلسوں میں بڑے بڑے دعوے کررہے تھے عوام ان کی سحر انگیز تقریریں سن کر جھوم رہے تھے اور ان کے میٹھے میٹھے بولوں کو اپنی تمام تر مصیبتوں اور مشکلات کا مداوا سمجھ رہے تھے اور کیوں نہ سمجھتے، سیاسی رہنما بھی تو اپنے سینے پر ہاتھ مار مار کر دعوے کررہے تھے کہ 11 مئی کی صبح ایک نیا سورج طلوع ہوگا جو اس ملک کو جنت نظیر بنادے گا۔ جنت کی حوریں بھی یہاں رہنے والوں کے رہن سہن اور عیاشیوں کو دیکھ کر رشک کریں گی۔ لوگ ان تقریروں سے متاثر ہو کر جوق درجوق ووٹ دینے گئے اور اپنے اپنے پسندیدہ رہنماؤں کے حق میں اپنا قیمتی ووٹ استعمال کیا اور خود استعمال شدہ ٹشو کی صورت اختیار کرگئے۔ انتخابات ہوگئے جس جس کو جو جو کچھ ملنا تھا مل گیا ہے یا مل رہا ہے، اقتدار کے ایوانوں میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ اپنے اپنے چہیتے سرکاری ملازموں کو من پسند عہدے بانٹے جارہے ہیں۔ پہلے ایک پارٹی کے منظور نظر افراد اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر براجمان تھے اور ”وقت کم ہے اور مقابلہ سخت“ کے زرین اصولوں پر گامزن ہو کر اپنی دنیا سنوار رہے تھے۔ اب وہی مواقع دوسری پارٹی کے من پسند افسران کے ہاتھ لگ رہے ہیں۔ اصول وہی دائمی ہے۔ ”وقت کم ہے اور مقابلہ سخت“ ان افسروں کو بھی وہی چال چلنی ہے جو اس سے پہلے والے چل گئے ہیں کیونکہ جہاں ٹریننگ ہوتی ہے وہ اکیڈمی ایک ہی ہے اس لئے پالیسی نہیں بدلنی پڑتی۔ 10 مہینے تک جیل میں نواز شریف کے ساتھ ہفتے میں دو ملاقاتیں عدالت کے حکم سے مقرر تھیں۔ میں دو بجے دوپہر کورٹ سے فارغ ہو کر سیدھا لانڈھی جیل اپنی گاڑی میں روانہ ہوتا تھا۔ تقریباً تین بجے وہاں پہنچ جاتا تھا۔ جیل حکام ایک ایک گھنٹہ مجھے دروازے پر یہ کہہ کر انتظار کراتے تھے کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب جیل کے اندر دورے پر گئے ہوئے ہیں اور اپنے کمرے میں موجود نہیں ہیں۔ جونہی وہ کمرے میں آئیں گے میرا کارڈ ان کو پہنچا دیا جائے گا۔ مجھے اس اذیت سے گزرنے کی عادت ہو گئی تھی اور ذرا بھی برا نہیں لگتا تھا بلکہ یوں لگتا تھا کہ یہاں کا طریقہ ہی یہی ہے میاں نواز شریف اندر میرا انتظار کررہے ہوتے تھے اور میں گیٹ پر اندر جانے کا انتظار۔ بہرحال جیسے ہی ملاقات شروع ہوتی تھی ہم دونوں اپنی اپنی تکلیف بھول جاتے تھے تھوڑی دیر کیس کے متعلق بات چیت کے بعد میں حسب عادت لطیفے سنانے شروع کردیتا تھا جسے میاں صاحب بہت شوق سے سنتے تھے اور پھر اپنے دوسرے ساتھیوں شہباز شریف، غوث علی شاہ، رانا مقبول، سعید مہدی، شاہد خاقان عباسی، سیف الرحمن کو بھی سنواتے تھے۔ ان لوگوں سے ملاقات تاریخ والے دن عدالت میں ہوتی تھی اور میاں صاحب فرمائش کرتے تھے کہ فلاں لطیفہ دہرایا جائے۔ ایک لطیفہ جو ایک پولیس ایس پی کے حج پر جانے سے متعلق تھا اور اس کا آخری جملہ تھا ”پالیسی وہی رہے گی“ میاں صاحب کو بہت پسند تھا اور ان کی فرمائش پر میں نے کئی مرتبہ دہرایا تھا لطیفہ لمبا ہے اس لئے یہاں نہیں لکھ رہا۔ جگہ کم ہے اور پولیس سے کام بھی لینا ہے، اس لئے مناسب نہیں۔
آج سان فرانسسکو کی سردی میں بیٹھ کر یہ کالم ہیٹر چلاکر لکھ رہا ہوں۔ یہاں موسم گرما میں بھی سخت سردی ہے اور ہوٹلوں میں ہیٹر چل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک تو موسم کی گرمی ہے دوسری لوڈ شیڈنگ، تیسری سیاسی سرگرمیوں اور عہدوں کی بندر بانٹ کی گرمی ہے۔ لوگ گرمی کے عادی ہوگئے ہیں اور جس طرح مجھے جیل کے دروازے کے باہر دھوپ میں ایک گھنٹہ روز کھڑے ہونے سے گرمی نہیں لگتی تھی اسی طرح اب ہمارے ملک کے لوگوں کو بھی گرمی نہیں لگتی۔ اب ان کے اندر گرمی آگئی ہے اور ہمارے رہنما بھی اب روزمرہ کی تنقید کے عادی ہوگئے ہیں اور پروا نہیں کرتے بقول مرزا غالب #
کس روز تہمتیں نہ تراشا کئے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کئے
ضد کی ہے اور بات، مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کئے
غالب! تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کئے، اور وہ سنا کئے
بہرحال ابھی تو کاروان جمہوریت کی گاڑی کا صرف سلف لگا ہے کچھ کہنا، تبصرہ یا تجزیہ کرنا قبل از وقت ہے۔ میری رائے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر کام کرنے دیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کام صرف آزادانہ ہو جائے اور منفی کا سارا کام پھر سپریم کورٹ ہی کو کرنا پڑے۔ اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، نیشنل انشورنس اور ایسے کئی قومی ادارے حکومت کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں اور ایماندار، فرض شناس افسروں سے بھرے پڑے ہیں۔ اچھے دیانتدار افسروں کو ان محکموں میں موقع دیا جائے تاکہ وہ ان محکموں کو سنوار سکیں۔ رشوت خور اور محکمے کو تباہ کرنے والے افراد کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال کر فوری طور پر ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے اور نیب کی عدالتیں جو گزشتہ پانچ سال سے سونی پڑی ہوئی ہیں انہیں دوبارہ آباد کیا جائے تاکہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس عوام کو دیا جائے۔ کام مشکل نہیں ہے صرف جذبے اور لگن کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کے اندر ایماندار لوگ خود بتائیں گے کہ کس نہ کتنا لوٹا ہے۔ ان کے پاس تمام حساب موجود ہے مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ گزشتہ دور میں زمینوں پر جو ناجائز قبضے ہوئے ہیں انہیں فوراً بحال کیا جائے اور متعلقہ ریونیو افسروں کو نیب کے حوالے کیا جائے۔ جن لوگوں کی زمینیں گئی ہیں انہیں ایک ایک اہلکار کا نام یاد ہے۔ آخر میں غالب کا حسب حال شعر قارئین کی نذر ہے #
اُگ رہا ہے درو دیوار پہ سبزہ غالب#
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
تازہ ترین