بروز جمعہ چیئرمین سینٹ کا الیکشن تھا، پی ٹی آئی کے نامزد چیئر مین صادق سنجرانی کامیاب ہو گئے، سنجرانی کو 48 ووٹ ملے جبکہ ان کے مد مقابل یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے اور ان کو ملنے والے 7 ووٹوں کو مسترد کردیا گیا اور ایک ووٹ دونوں اُمیدواروں کے لیے نشان زدہ ہونے پر مسترد ہو ا۔PDM یوسف رضا گیلانی کو جتوا کر جس طرح ڈھول بجا رہی تھی، وہ اعتماد کا ووٹ پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈلوا کر بھی خوش فہمی میں مبتلا تھی۔ 164 والے حفیظ شیخ کو ہروا کر 178 ووٹ وزیر اعظم کو کیسے سرخرو کر گئے۔ جمعہ کو پھر وہی کھیل رچایا گیا۔ مگر یہ ذرا مشکل تھا، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، وہ نہ تو پی ڈی ایم کو معلوم تھا اور نہ ہی PTI والوں کو۔ یار لوگ کہتے ہیں یہ صرف انہیں معلوم تھا جنہیں سب معلوم ہوتا ہے۔ یہ گورکھ دھندا پی ٹی آئی کی جیت کے لئے روز اول سے جاری ہے۔ کون کب جیتتا ہے اور کون کب ہارتا ہے ،یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا ،اگر چہ اس مملکت پاکستان میں بد قسمتی سے یہ کھیل روز اول سے جاری ہے۔ البتہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت تک یہ سیاست اور سازشوں تک محدود تھا ،پھر ایوب خان کاڈنڈا آ گیا، قوم خاموشی سے یہ تماشہ دیکھتی رہی، مگر پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاست کے ساتھ ساتھ کرپشن شامل ہو چکی تھی۔ جب اقتدار مرحوم ضیاالحق نے سنبھالا تو پی پی پی کو کچلنے کے لئے پہلی مرتبہ ارکانِ قومی اسمبلی کو 50,50 لاکھ کی رقم حلقوں کے عوام کی بہتری کے نام پر دی گئی جس کو سیاسی رشوت سمجھ سکتے ہیں، بے نظیربھٹو کو اقتدار سے باہر کر نے کے لئے مسلم لیگ (ن) یعنی نواز شریف کو متعارف کرایا گیا۔
پھر آہستہ آہستہ اس کاروباری خاندان کو سیاست کی ابجد سمجھائی گئی۔ بدقسمتی سے تختی پڑھنے کے دوران ضیاالحق کاجہاز پھٹ گیا اگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ چاہتے تو اقتدارسنبھال لیتے مگر انہوں نے مارشل لا سے واپس عوامی جمہوریت کا سفر شروع کر ادیا۔ اس طرح صدر اسحاق خان بر سر اقتدار آگئے ،یوں دوبارہ پی پی اور نواز شریف کے درمیان عوامی دنگل شروع ہو گیا اور کرپشن سیاست سے جڑ گئی اور اسی کرپشن کی وجہ سے وزارتِ عظمی آتی اور جاتی رہی۔ جب صدر اسحاق خان احتساب کراتے کراتے تھک گئے تو ان کو فارغ کر کے دونوں جماعتوں کو آمنے سامنے لڑوا دیا گیا۔ پھر نواز شریف کا احتساب شروع ہوا لیکن ایک دوست ملک کی مداخلت پر نوازشریف کو پرویز مشرف نے جلا وطن کر دیا۔ اس دن سے آج تک نواز شریف ناراض ہیں۔ قدرت پھر میاں نواز شریف پر مہربان ہوئی، پرویز مشرف نے NRO دے کرالیکشن کا اعلان کیا تو بینظیر بھٹو کی شہادت ہو گئی اور اقتدار آصف علی زرداری کو مل گیا، مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں اقتدار کی باریاں شروع ہو گئیں۔ قوم دونوں کے تماشے میں خود بھی ملوث ہوتی رہی، سیاستدان ایک دوسرے کی پارٹیوں میں شامل ہو کر فیض اٹھاتے رہے۔ پھر پی ٹی آئی کو پاکستان کے بہی خواہوں نے آخر کار 2018کے الیکشن میں آزمانے کا تجربہ کیا اور بڑے بڑے سیاسی کھلاڑیوں کو اس میدان سے باہر کر دیا۔ صرف مولانا فضل الرحمٰن کو یہ کھیل پسند نہ آیا کہ وہ پہلی مرتبہ مکمل طور پر باہر ہو گئے تھے۔ انہوں نے ہارے ہوئے پہلوان کی طرح اٹھ کر دوبارہ شامل ہونے کے لئے اپنے تمام سابق پارٹنروں کو یکجا کرنے کیلئےPDMبنائی۔ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جے یو آئی کے سب ہارے ہوئے سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے دو دو ہاتھ پی ٹی آئی سے کرنے کا پروگرام زور شور سے جاری رکھا۔ ادھر پی ٹی آئی قوم کو تبدیلی کے نام پر کچھ نہ دے سکی اور قوم غربت و افلاس کے گڑھے میں جا گری تو PDM نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو میدان مل گیا۔ ایسے میں سینٹ کے الیکشن سر پر آئے تو دوست دشمن بن کر آمنے سامنے آ گئے۔ 2018کے سینٹ کے الیکشن میں ایک دھماکہ ہوا اور صادق سنجرانی پی پی پی کے امیدوار بن کر الیکشن جیت گئے۔ پھر کیا جوڑ توڑ ہوا جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک خود پی پی پی لائی تو اکثریت ہونے کے باوجود تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ پھر سینٹ کا الیکشن ہوا تو جیتی ہوئی 178ووٹوں والی جماعت اپنے امیدوار حفیظ شیخ کو تو نہ جتوا سکی مگر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دلوانے میں کامیاب ہو گئی۔ ایک طرف ماتم تو دوسری طرف خوشی کے شادیانے بجے، غداروں کو معاف کر کے لنچ بھی کروایا گیا۔ قوم سے تنہا خطاب بھی کیا، غداروں والا صفحہ جیب میں ہی رہا کیونکہ چیئرمین سینٹ کا الیکشن باقی تھا۔ سو سیاست میں سب جائز ہے کا فارمولہ جمعہ کو پھر آزمایا گیا۔ مگر اصل چہرہ قوم نے ڈسکہ کے ایکشن میں دکھا دیا اور اب کراچی کے الیکشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا ۔خواہ اتحادی جماعت کچھ بھی کر لے مگر کرشمے قوم کا مقدر بن چکے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)