• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیر سے بھی پیار ہے شر سے بھی عشق

جیسے شر سے مخلص ہیں خیر سے اسی طرح مخلص، یہی وجہ ہے کہ نتیجہ ایک جیسا، شر سے پیار میں بھی خوب کمائی کی، خیر سے خلوص نے بھی تجوریاں بھر دیں، گویا خیر و شر کے درمیان ہم نے ہر فرق مٹا دیا، کیسی جادوگری ہے کیسی ہوشیاری، پہلے دولت کمائی پھر عزت اور آخر میں شہرت پائی، لینا پڑا دینا نہ پڑا یہ ہے وہ دانش کہ جس نے دانشور بنا دیا اور عقلمند وہی جو تماشائے لب خشک دریا، جب سے چینلز دن رات چلنے لگے ہیں مساجد کے لائوڈ اسپیکرز سے نشریات بھی 24 گھنٹے جاری، دین، سیاست کے بازار میں ایسی مشابہت کسی صدی نے نہیں دیکھی، مزے کی بات یہ ہے کہ شر سے مخلص ہو جائو خیر بھی جھولی میں آ گرتا ہے، یہ ایسا میکانزم ہے جسے چالاکوں نے ایجاد کیا، ذہینوں نے سمجھا نہیں، پہلے ہزاروں سال نرگس روتی تھی تب جا کر دیدہ ور پیدا ہوتا تھا اب نرگس رقص کرتی ہے تو ٹکسال چل پڑتی ہے، پہلے پیشے سے کام چلتا تھا اب ہر کام پیشہ ہے جائز ناجائز نے بھی صلح کر لی ہے، نکاح بھی ہو چکا گویا ہماری فقہ بھی بدل گئی کیونکہ فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا، ایک ہی بات ہے آپ نیکی کریں یا گناہ بس ذرا سلیقے طریقے سے، کسی کا نتیجہ چوری ہو گیا کوئی اس سے ہمدردی کے بجائے تدفین میں مگن، جہاں بچے پیدا کر کے عشق فارغ ہو جائے وہاں بیروزگاری کا عالم کیا ہو گا۔ شیخ رشید کو اللہ خوش رکھے‘ سیاست کے لطیفہ بازار کا ’’قصہ خواں‘‘ ہے، سیاست علم سے نہیں دولت سے آتی ہے اور پھر نوٹ چھاپنے والی مشین بن جاتی ہے ایسے میں ووٹ کا انجام کیا ہو گا اور ووٹر کا کام کیا ہو گا، ہم نے عنوان میں منافقت کی تازہ پہچان پیش کر دی ہے اب مزید کچھ پیش کرنے کی سکت کہاں؟

٭٭٭٭

سستے ٹیچر مہنگی تعلیم

حیرانی ہے کہ سارا وطن بازار بن گیا، جس کی شاہ عالمی میں دکان ہے اس کا ایک عدد سکول بھی ہے جو رات کو اکیڈمی میں بدل جاتا ہے، کورونا نے سارے تعلیمی ادارے بند کرا دیئے مگر اکیڈمیوں کو کھلا رہنے دیا تاکہ اس کا بھی کاروبار چلے، اساتذہ کوڑی کے مول مل جاتے ہیں، اس لئے اکیڈمیاں سونے کے بھائو تعلیم بیچتی ہیں، بیچارے پڑھے لکھے بیروزگار ہی رزقِ اکیڈمی بنتے ہیں بلاوجہ رکھے جاتے ہیں بلاوجہ نکال دیئے جاتے ہیں۔ اہل علم بھی نا اہل ہوتے جاتے ہیں کہیں سے کتاب علم لے ساقی، ہر شخص یعنی ہر پڑھے لکھے کا اپنا تلفظ ہے، لفظ اپنا صحیح تلفظ کھو بیٹھے جب لفظوں کو بھی لوٹا جائے تو عام آدمی کے پاس کیا بچے گا، 1500 سے 10ہزار روپے تک میں استاد بکتا ہے یہ ہے بازار علم کا حال، جہالت کا بازارِ علم گرم ہے بندۂ مفلس کا گوشت نرم ہے۔ طبقہ امراء کی چمنیوں سے نکلتی خوشبو کس قدر بھوک چمکا دیتی ہے یہ تو غیر سیاسی سیاستدان اور حکمرانی سے مذاق کرنے والوں سے کوئی پوچھے، جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیاستدانے، اگر اس ملک میں اسکولز ہیں، کالجز ہیں یونیورسٹیاں ہیں تو پھر یہ اکیڈمیوں کی کوئی تک بنتی ہے؟ جیسے مذہب کاروبار بنتا جا رہا ہے تعلیم بھی نفع بخش پیشہ، دنیا میں کہیں بھی اکیڈمی بازار نہیں لگتا، کیونکہ تعلیمی ادارے کوئی کسر باقی نیں چھوڑتے، اپنا حق ادا کرتے ہیں، ہم ’’لیگ پلنگ‘‘ یعنی ٹانگ کھینچ فن میں بھی کمال رکھتے ہیں، یہ حق دار کو اس کے حق سے محروم کر کے قبضہ کرنے کا ہنر ہے۔ بیروزگار ہر انتہاء کے عوض ایک عدد CV ڈراپ کر دیتے ہیں کہ کہیں سے تو بلاوا آئے گا اور جب انٹرویو کے لئے بلایا جاتا ہے تو امیدوار فیل کیونکہ اس نے اشتہار کے مطابق تیاری کی ہوتی ہے۔

٭٭٭٭

مینوں دھرتی قلعی کرا دے

استاد دامن بظاہر پہلوان اندر سے شاعر تھے، شاعر، شعور کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے کہ سچ کہہ ہی ڈالے، جب استاد نے یہ گیت لکھا تھا تو ان کے دوسرے مصرعے پر بھی عمل کیا گیا، یہ کسی نے نہ سوچا کہ دھرتی پر تو کچرا ہی کچرا ہے کوئی اس پر ناچے کیسے اور وہ بھی رات کو، ہر سی ایم لاہور کو صاف کرنے کا اعلان کرتا ہے مگر عمل نہیں کراتا، اب اس کچرازار میں کوئی کام کیسے کرے، کسی ملک میں آپ کو گھر میں یا گھروں کے بیچ خالی پلاٹ پر بھینسیں بندھی نظر نہیں آئیں گی؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ میری دیوار کے ساتھ خالی پلاٹ پر چار پانچ مویشی 12مہینے بندھے رہتے ہیں ذرا سی ہوا چلے تو سارا کینال پوائنٹ فیز ٹو خوشبو زار بن جاتا ہے، علاقے کے مکین روک بھی نہیں سکتے کہ بھینسیں با اثر افراد کی ہوتی ہیں، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، جس روز یہ بھینسیں ہٹائی جائیں گی اس روز ہم یہ گیت گائیں گے؎

نہ میں سونے دی نہ چاندی دی میں پتل بھری پرات

مینوں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات

٭٭٭٭

پھر سچا شعر سنائیں کیا

....Oپی ڈی ایم:گیلانی کی جیت چوری کی گئی۔

....Oحکومت:ان کی سیاست دفن ہو گئی اب رو رہے ہیں۔

دو چوروں کی لڑائی میں بھلا ہم کیوں پڑیں، ہمیں تو انتظار ہے کہ مہنگائی جائے تب ہم چور کو بھی ولی جانیں گے۔

....O شیخ رشید:کیمرے لگے ہوں یا نہیں نتیجہ یہی آنا تھا۔

جو بھیدی ہوتا ہے وہی صحیح کھُرا ماپتا ہے۔

....Oمصطفیٰ کھوکھر:پریزائڈنگ افسر نے جان بوجھ کر ووٹ مسترد کئے۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا

کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا

تازہ ترین