• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’خان حکومت‘ تیسرے سال میں داخل ہو چکی، وہی ’’مرغی انڈے کی بحث‘‘، کچھ بھی تو نہیں بدلا نہ غریب کی قسمت نہ مجبور کا حلیہ ،نہ کسان کا مقدر، نہ پولیس، تھانہ کچہری کا جابرانہ رویہ اور نہ رشوت خوری، اقربا پروری، دھونس دھاندلی، حق دار کی حق تلفی اور نہ ہی زبردستوں کے ہاتھوں زیر دستوں کی ہوتی ہوئی شکست و بے توقیری کا نظام، ہاں! لیکن اگر بدلا ہے تو نعروں، وعدوں کی خوش نما جگل بندی، سیاسی موشگافیوں کے نت نئے انگنت سٹائل، میڈیا پر بیٹھ کر بازاری لہجوں میں سوقیانہ جملوں کی روز افزوں ہوتی ہوئی شرمناک بھرمار جو کہ دربار عالی مقام، کے اکابرین خاص کی طرف سے بلاناغہ شب و روز تبرکاً کی جاتی ہے اور پھر تنی ہوئی گردنوں کے ساتھ منبع تبدیلی سرکار سے من حیث المجموع اس کارگزاری پر داد و تحسین کی اسناد بھی وصول کی جاتی ہیں۔ خان کی راجدھانی میں ایک اور رحجان بڑی سرعت کے ساتھ پنپ رہا ہے کہ اپوزیشن و سیاسی حریفوں کو بددیانتی کے نانگا پربت ثابت کرنے کے لئے اور انہیں قید و بند کی صعوبتیں بہم پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا اس قدر زور لگا دو کہ خود پر فرشتہ ہونے کا گماں بلکہ یقین ہونے لگے۔ چنانچہ اسی یقین و گماں کے واہموں کے طلسم میں کارندہ ہائے حکومت مکافات عمل کا لغوی مطلب تک بھول کر ریاست و قوم کو سرابوں میں دھکیل رہے ہیں۔

چور چور، ڈاکو، لٹیرے، چھوڑوں گا نہیں، جیلوں میں ڈالوں گا، این آر او نہیں دوں گا جیسے ڈائیلاگ دنیا بھر کے پاکستانی ہر روز اور شب و روز سنتے اور سر دھنتے ہیں کہ گزرے تقریباً تین سال میں اوپر ذکر کی گئی باتوں کے سوا بدلا کیا ہے آخر؟ اب پچاس لاکھ گھروں کا حال سن لیں، یو کے میں مقیم وہ انویسٹر اور خان کے دوست برملا کہتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد آج تک پورے ملک میں پچاس لاکھ سے آدھے گھر بھی نئے نہیں بنے لہٰٗذا پچاس لاکھ گھروں کا صرف نعرہ ہے عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ برطانیہ میں آج صورتحال یوں ہے کہ خان پارٹی کے وہ لوگ جو دہائیوں سے ان کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے تھے، وہ بھی اور پارٹی میں شامل ہونے والے نئے لوگ بھی حکومتی کشتی ڈوبنے کی توقع کئے بیٹھے ہیں بلکہ نجی محافل میں ببانگ دہل اور سوشل میڈیا پر دبے لفظوں میں حکومتی رویوں پر تنقید کر رہے ہیں‘ ان میں سے بعض لوگ موجودہ دور حکومت میں پاکستان نہ جانے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ وہ اوورسیز پاکستانی جنہوں نے تبدیلی کے نعرئہ مستانہ پر دیوانہ وار رقص کیا تھا اب وہ اپنے تلوئوں کے پھپھولے سہلا رہے ہیں اور نہ آنے والی تبدیلی کا طوق پہنے پا بجولاں چلنے کا دکھ اٹھا رہے ہیں‘ ان کا یہ دکھ اور افسوس اس لئے بھی دوچند ہے کہ پیسہ اور بے بہا وقت ضائع کرنے کے باوجود خان نے انہیں پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی۔ دوسرا بڑا نعرہ ایک کروڑ نوکریوں کا تھا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خان حکومت نے نوکریاں دینے کی بجائے اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے لاکھوں نوکریاں ختم کر دیں اور جب تنقید بہت زیادہ بڑھی تو کہہ دیا حکومت تھوڑا نوکریاں دیتی ہے یہ تو اداروں کا کام ہے۔

میڈیا آزاد ہو گا، پاکستانی پاسپورٹ کی بیرونی دنیا کے ایئر پورٹس پر توقیر میں اضافہ ہو گا، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، بھیک نہیں مانگیں گے، پولیس اصلاحات لائیں گے، لوٹوں کو اپنی جماعت میں نہیں داخل کریں گے، کرپشن اور مہنگائی ختم کریں گے، وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو یونیورسٹیاں بنائیں گے، ایک جیسا نظام تعلیم اور اس میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے‘ اداروں کو عوام کے تابع کر کے ان میں شفافیت لائیں گے، رشوت اور چور بازاری ختم کریں گے، وزیراعظم کرپٹ ہو تو کرپشن نیچے تک جاتی ہے، لوٹا ہوا پیسہ واپس پاکستان لائیں گے، فوجی سربراہ کو ایکسٹینشن نہیں دیں گے، وزیروں مشیروں کی تعداد کم سے کم رکھیں گے، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور سہولتیں دیں گے ان کی پاکستان میں موجود جائیدادوں کو تحفظ دیں گے، کفایت شعاری اور کمرشل فلائٹس پر سفر کریں گے، اقربا پروری نہیں کریں گے، وزیراعظم ہائوس میں رہنے کی بجائے بنی گالہ میں رہوں گا، سرکاری پروٹوکول نہیں لیں گے، مختلف منصوبوں پر لگنے والی تختیوں پر اپنا نام نہیں لکھوائیں گے، اداروں کو آزاد کریں گے وغیرہ وغیرہ جیسے بیشمار خوش کن نعرے ہمہ وقت سننے میں آتے ہیں لیکن کھلی حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ ان نعروں کے برعکس ہو رہا ہے، آپ برملا کہتے تھے خود کو سب سے پہلے احتساب کے لئے پیش کروں گا تو پھر ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا‘‘؟ صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ کئی سال سے سٹے آرڈرز کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ ہاں! ایک کام ضرور آپ نے کیا کہ آپ نے حکومت سنبھالتے ہی 102سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کا اشتہار دے دیا جن میں سے صرف 61 گاڑیاں بیچ کر آٹھ کروڑ روپے حاصل کر لئے! اسی طرح آپ نے وزیراعظم ہائوس کی آٹھ بھینسوں کی نیلامی سے 23 لاکھ روپے حاصل کر لئے یعنی آٹھ کروڑ 23 لاکھ روپے کی حقیر سی رقم حاصل کر کے شہرت حاصل کی گئی البتہ یاد آیا کہ ہیلی کاپٹر کی نیلامی پر آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

خان نے اپنے اڑھائی سال سے زیادہ کے دور حکومت میں کہیں بھی کسی معاملہ پر اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت نہیں دیا کبھی اپنی ناکامیوں کا پامردی سے اعتراف نہیں کیا۔ حتیٰ کہ فارن فنڈنگ کیس جس کا براہ راست تعلق خود خان سے ہے، 24بار الیکشن کمیشن نے تحریری حکم دیا کہ اپنے تمام بینک اکائونٹس کی تفصیل جمع کروائیں لیکن آپ نے یہ نہیں کیا، مجبور ہو کر سٹیٹ بینک سے ریکارڈ منگوایا گیا تو ان اکائونٹس کی تعداد 8 نہیں 23 تھی یعنی پندرہ اکائونٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے گئے تھے۔ لہٰذا آپ کا جو سفر ’’کرتا کچھ نہیں تو کیا ہوا ہنڈسم تو ہے‘‘ پر تھم چکا ہے تو ایسے میں اور کچھ نہیں تو خان صاحب نعرے ہی بدل لیں!

تازہ ترین