• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے انتخابات میں مشیر برائے خزانہ عبد الحفیظ شیخ کی شکست نے کپتان کو ’’پارلیمان‘‘ سے اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کر دیا انہوں نے جس طرح اعتماد کا ووٹ حاصل کیا یہ ایک دلچسپ کہانی ہے لیکن اس شکست نے کپتان کو اس حد تک ’’زخمی‘‘ کر دیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ’’پی ڈی ایم قیادت کے لئے میرا پیغام ہے چاہے میں اقتدار میں رہوں یا نہ رہوں ان کو نہیں چھوڑوں گا،‘‘ اب انہوں نے اپنے ہی قائم کردہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ہے۔

الیکشن کمیشن، جو آئینی طور پر ایک آزاد و خود مختار ادارہ ہے، بھی وزیر اعظم کی تنقید کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے انتظامیہ اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان، جس کے پاس تحریک انصاف کا غیر ملکی فنڈنگ کیس زیر سماعت ہے، نے وزیراعظم عمران خان کے سینیٹ انتخابات سے متعلق بیان کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ’’ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترمیم کر سکتے ہیں۔

اگر کسی کو الیکشن کمیشن کے احکامات، فیصلوں پر اعتراض ہے تو وہ آئینی راستہ اختیار کرے اور ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دے۔ ہم کسی بھی دباؤ میں آئے اور نہ ہی آئیں گے۔‘‘ الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان اس روز ہی جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا جب اس نے این اے 75 میں ہونے والی انتخابی دھاندلی پر پورے حلقہ میں از سرنو انتخاب کرانے کا اعلان کر دیا۔

الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں ’’خفیہ بیلٹ‘‘ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کرانے کے موقف پر ڈٹ گیا تھا۔ وزیر اعظم کو اس بات کا یقین تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ’’خفیہ ووٹ‘‘ ان کی شکست کا باعث بنے گا لہٰذا انہوں نے اوپن ووٹ کے ذریعے انتخابات کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

واضح رہے کہ1973ء کے آئین میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد 6ماہ تک وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی تھی اب آئین سے آرٹیکل 96اور 96اے کو ختم کر دیا گیا ہے لہٰذا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کسی وقت بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہو سکتی ہے۔

دریں اثنا لندن سے ایک ذمہ دار مسلم لیگی لیڈر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میاں نواز شریف نے سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والے 16ارکان میں سے کچھ کو آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

’’سیاسی اخلاقیات‘‘ کا تقاضا ہے کہ جن 16ارکان کے ووٹ نے سینیٹ کی جنرل نشست پر عبد الحفیظ شیخ کی شکست کو یقینی بنایا ہے وزیر اعظم کو ان سے اعتماد کا ووٹ نہیں لینا چاہیے تھا ان مشکوک ارکان کے خلاف اسی طرح کی انضباطی کارروائی کرنی چاہیے تھی جس طرح ہارس ٹریڈنگ پر 20ارکان کو پارٹی سے نکال باہر کیا تھا۔ شیخ رشید احمد نے بھی برملا کہا ہے کہ اگر ہم ان ارکان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو پوری حکومت گر جاتی ہے فی الوقت سیاسی مصلحت وزیر اعظم کے آڑے آگئی۔

پارلیمانی حلقوں میں اعتماد کا ووٹ دینے والے ارکان کی تعداد بھی متنازعہ بن گئی ہے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد کا ووٹ لینے کی قرارداد کی منظوری کے بعد اعلان کیا کہ 178 ارکان نے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے لیکن اپوزیشن جس نے اس عمل کے دوران ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا کا موقف ہے ایک تو وزیر اعظم کی سمری پر اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے طلب کردہ اجلاس غیر آئینی ہے دوسرا اعتماد کا ووٹ دینے والوں کی تعداد 178نہیں تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کی سمری پر اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے بلائے گئے اجلاس کی قانونی حیثیت کےبارے میں آئینی امور کے ماہرین نے سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اپنے طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری صدر کو نہیں بھیج سکتے البتہ وہ صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے سکتے ہیں جب کہ صدر مملکت ایوان کا اعتماد کھو جانے پر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کے بعد اپوزیشن کے لانگ مارچ کا آخری مرحلہ شروع ہونے والا ہے اور اب لانگ مارچ کا چرچا ہو گا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ’’کپتان ‘‘ بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں ‘‘۔

اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپوزیشن کو دھمکی دی ہے ’’ کپتان ہوں آخری گیند تک لڑوں گا ‘‘ عمران خان نے اڑھائی سال میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں تین بار اطمینان سے خطاب کیا دوبار اپوزیشن کی غیر حاضری میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔

ایک بار انہوں نے اپوزیشن کیساتھ معاہدے کے تحت خطاب کیا اپوزیشن نے وزیر اعظم کی تقریر سنی لیکن جب اپوزیشن کی باری آئی تو وزیر اعظم اٹھ کر چلے گئے وزیر اعظم کے طرز تخاطب میں نرمی آئی ہے اور نہ ہی وہ اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کیلئے تیار نظر آتے ہیں، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو حالت جنگ میں رکھنا چاہتے ہیں قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد کی قرار داد پیش کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس ان کا نام عمران احمد نیازی ہے۔ کیا پارلیمانی امور میں اس غلطی کی گنجائش ہے؟

تازہ ترین