• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمانہ قیامت کی چالیں چلتا رہا، آسمان رنگ بدلتا رہا اور ہم خاموش تماشائی بنے تاریخ کو بنتے، بگڑتے اور پہلو بدلتے دیکھتے رہے۔ ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں اور ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جوہماری آنکھوں کے سامنے بنتی اور سانچوں میں ڈھلتی ہے۔ آج اللہ کے فضل و کرم سے ہماری نئی اسمبلیاں معرض وجود میں آچکیں، اراکین بھاری حلف کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھا چکے ہیں اور حکمران حلف اٹھانے والے ہیں۔ چہروں پہ پھول کھل رہے ہیں، امیدوں تمناؤں اور توقعات کے دیپ روشن ہورہے ہیں اور لوگ اڈیاں اٹھائے اپنے مسائل کے حل کے منتظر ہیں۔ مسائل دنوں اور ہفتوں میں حل ہونے والے نہیں، اس کا احساس عوام کو بھی ہے لیکن لوگ پراعتماد اور اندر سے مطمئن ہیں کہ نئے حکمران کم سے کم خلوص نیت سے کوشش تو کریں گے اور جب خلوص نیت سے کوشش کریں گے تو انشاء اللہ اس کے نتائج بھی نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس بیک گراؤنڈ میں 2013ء کے انتخابات کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی کرن دکھائی ہے۔ جمہوریت کے حسن کا راگ الپانے والو،جمہوریت کااصل حسن یہ ہے کہ وہ لوگوں کو روشنی دکھاتی ،امید دلاتی اور پراعتماد بناتی ہے۔
اسمبلیوں کے اراکین کو حلف اٹھاتے دیکھ رہا تھا تو گزشتہ تقریباً نصف صدی کی تاریخ فلم کی مانند میری آنکھوں کے سامنے مناظر بدل رہی تھی۔ تمام یادوں کو مختصر سے کالم میں سمونا ممکن نہیں اس لئے کچھ یادوں کو اگلے کالموں کے لئے اٹھارکھوں گا۔ میں نے شروع میں اراکین کے حلف کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ اپنے نازک کندھوں پر بھاری حلف کا بوجھ اٹھا چکے ہیں۔ اس فقرے کے پس پردہ میرا طویل مشاہدہ ہے کہ اراکین حلف اٹھانے کے چند ماہ بعد حلف کا مفہوم ،ذمہ داریاں اور تقاضے بھول جاتے ہیں اور پھر دنیا کے رنگ میں رنگ کر اسی طرح غلط سفارشیں، اقرباء پروری ،سفارشی نوکریاں اور جہاں موقع ملے جیبیں بھرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ سفارشیں او ر اقرباء پروری کے حوالے سے میری یاداشتوں کا خزانہ ایک بھاری بھرکم کتاب کا مواد ہے۔ اس حمام میں میں نے بڑے بڑے اصول پرستوں اور پرنور ریش مبارک والوں کو ننگے دیکھا۔ آپ ان سے معذرت کریں پھر ان کا”جلال“ دیکھیں۔
یادوں کی برسات برس رہی ہے۔ میں نے پنجاب اسمبلی کے ایک رکن جناب غیاث الدین کو اسمبلی میں موٹر سائیکل پر آتے دیکھا تو مجھے ایوب خان کے صدارتی طرز حکومت کی مغربی پاکستان کی اسمبلی یاد آگئی۔ میں ا ن دنوں کالج میں پڑھتا تھا ا ور سیاست میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ اسمبلی کے اجلاس کے دنوں میں تقریباً ہر روز اراکین اسمبلی کی رہائش گاہ پیپلز ہاؤس میں جانا ہوتا تھا چونکہ میرے ماموں چوہدری محمد اقبال مرحوم اسمبلی کے رکن تھے اور میں ان کا باپ کی مانند احترام کرتا تھا۔ چوہدر ی محمد اقبال مرحوم موجودہ سینیٹر چوہدری جعفر اقبال، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے والد، شفقت محمود ایم این اے کے ماموں ،چوہدری ذکاء اشرف کرکٹ بورڈ اور بیگم عشرت اشرف سابق ایم این اے کے چچا اور سسر تھے۔ ان دنوں اومنی بس سروس کی ایک سرخ بس صبح ہی صبح پیپلز ہاؤس پہنچ جاتی تھی جس میں خواجہ محمد صفدر مستقل مسافر ہوا کرتے تھے۔ خواجہ محمد صفدر لیڈر آف دی اپوزیشن تھے، خوب تیاری کرکے اسمبلی میں آتے اور حکومت کی خاصی”تواضع“ کیا کرتے تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جناب حمزہ بھی اسمبلی کے رکن تھے اور وہ اکثر سائیکل پر اسمبلی جایا کرتے تھے۔ باقی تمام اراکین کاروں والے تھے۔ میں جب بھی خواجہ صفدر مرحوم کو سرخ بس میں اکیلے بیٹھے اور جناب حمزہ کو مال روڈ پر سائیکل چلاتے دیکھتا تو نہ جانے کیوں مجھے بے حد روحانی خوشی ہوتی ا ور میرا دل باغ باغ ہوجاتا۔ ان دونوں معززین سے میری خاصی ملاقاتیں رہیں۔ اخباری خبروں کے مطابق اب خواجہ محمد صفدر مرحوم کا فرزند ارجمند خواجہ آصف وزارت کا حلف اٹھانے جارہا ہے۔ میری فقط ان سے شناسائی ہے ، میری دعا ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ ان سے اور ان کی حکومت سے عظیم قومی خدمت لیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے اسمبلیاں بدل گئیں، اراکین بدل گئے، سیاسی اقدار بدل گئیں، شہر اور بستیاں بدل گئیں اور سیاسی آسمان کے رنگ بدل گئے۔ پاکستان بننے کے پندرہ برس بعد والی اسمبلی کے اراکین بتایا کرتے تھے کہ پنجاب کے ایک پسماندہ دیہات کے ایک ”ریئس عظیم“ المعروف چوہدری صاحب1945-46ء کے انتخابات میں برادری اور دولت کے زور پر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے۔ (معذرت میں ان کا نام نہیں لکھوں گا)، نہایت سادہ انسان تھے حتیٰ کہ انہیں لاہور دیکھنے کا بھی موقع نہ ملا تھا۔ اسمبلی کے ا جلاس کے لئے پہلی مرتبہ لاہور آئے تو فیشن ایبل اور ٹھنڈی سڑک مال روڈ سے گزرتے ہوئے انہیں کچھ ماڈرن خواتین نظر آئیں۔ دانتوں سے انگلیاں کاٹتے ہوئے فرمایا”عورتیں تو یہ ہیں ہم نے تو بھینسوں سے شادیاں کر رکھی ہیں“۔ وہ ہمیشہ زری والا خصہ پہنتے تھے۔ اسمبلی جانا تھا، ملازم نے مشورہ دیا کہ حضور ”انگریزی جوتی لے لیں، ملازموں کی فوج ہی ان کی مشاورتی کونسل ہوتی تھی، چنانچہ بوٹ خریدنے جوتوں کی ایک معروف دکان شاپ پر تشریف لے گئے کہ اس دور میں و ہی معززین کا ٹریڈ مارک ہوتا تھا۔ ملازم نے ایک خوبصورت سا بوٹ اٹھایا اور چوہدری صاحب کو پہنانے کی خدمت سرانجام دینے لگا۔ پاؤں بوٹ میں پھنس گیا کیونکہ تسموں کے نیچے بوٹ کی ”جیب “ ہوتی ہے اس نے پاؤں کا راستہ روک لیا تھا۔ پنجاب میں”زبان“ کو” جیب “ کہتے ہیں۔ دکان کے ملازم نے چوہدری صاحب کو بوٹ سے کشتی کرتے دیکھا تو کہا کہ چوہدری صاحب جیب باہر نکالیں یعنی تسمے کے نیچے والی”زبان“ کو باہر نکالیں۔ چوہدری صاحب اس قدر سادہ لوح اور تابع مہمل تھے کہ فوراً اپنا منہ کھولا اور زبان باہر نکال دی۔ اب تو ماشاء اللہ ان چوہدری صاحب کی تیسری نسل مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی ہوچکی ہے، ان میں ولایت پلٹ ڈاکٹر بھی ہیں اور اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں۔ یہ سب آزادی کی برکات ہیں، یہ سب کچھ پاکستان کی دین ہے۔
بہت سی یادوں کو اگلے کالموں پر اٹھا رکھتا ہوں۔ فی الحال اتنا سا غور کیجئے کہ جس جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے گرفتار کرکے اٹک قلعے میں ڈالا تھا ،آج خود اپنے گھر کے ایک حصے میں قیدی بنا بال نوچ رہا ہے اور میاں نواز شریف چودہ برس بعد حلف اٹھا کر اسی وزیر اعظم ہاؤس میں جانے والے ہیں۔ ثابت ہوا کہ اقتدار عوام کی مقدس امانت ہے۔ یہ جرنیلوں کی جاگیر نہیں۔ عساکرپاکستان جتنی جلدی یہ سبق سیکھ لیں ملک کے لئے اسی قدر بہتر ہوگا۔ خبریں ہیں کہ جنرل مشرف کو چپکے سے باہر بھجوادیا جائے گا تو پھر یاد رکھیئے کہ آئندہ مداخلت کا راستہ بند نہیں ہوگا۔ کب جنرل جہانگیر کرامت کے بعد جنرل مشرف آجائے، کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اگر ایک بار آئین کے سجاوٹی سیکشن چھ کو متحرک کردیا جائے تو امید ہے کہ مداخلت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ یہ انتقام نہیں بلکہ یہ آئین کا تقدس ہے جو اس پر عمل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ بھی خبر گرم ہے کہ میاں صاحب وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش نہیں رکھیں گے۔ میں اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر اسے غیر مناسب فیصلہ سمجھتا ہوں کیونکہ وزیر اعظم ہاؤس کے ہوتے ہوئے دوسری جگہ کو وزیر اعظم ہاؤس قرار دینا خزانے پر بوجھ ہوگا۔ وزیر اعظم ہاؤس قوم کے اقتدار کی علامت ہوتا ہے جہاں غیر ملکی مہمان، وزراء اعظم، صدور اور دیگر معززین آتے ہیں، سرکاری تقریبات اور دعوتیں ہوتی ہیں اس لئے ا سے قوم کے شایان شان ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل مسئلہ شان و شوکت اور خرچ گھٹانے کا ہے۔ سادگی کے اصول کو عملی جامہ پہنانا، لوڈ شیڈنگ کے استثنیٰ کو ختم کرنا اور مغلیہ طرز کے پروٹوکول کا خاتمہ قوم کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے کافی رہے گا نہ کہ قوم کے پیسے سے تعمیر کردہ وزیر اعظم ہاؤس کو ترک کرنا۔ میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں جلا وطنی سے نکال کر تیسری بار وزیر اعظم بنادیا ہے۔ قوم ، اپوزیشن، عدلیہ، میڈیا حتیٰ کہ صدر زرداری بھی ان کے ساتھ ہیں۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ اب نمائشی اقدامات کو چھوڑ کرملک کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہوجائیے کہ لوگ آپ کو آپ کی کارکردگی سے ناپیں اور جانچیں گے۔ بہت سی باتیں رہ گئیں انشاء اللہ پھر کبھی!!
تازہ ترین