• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے فتح حاصل کر لی ہے اور سینیٹ کے اپنےامیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست کا بدلہ چکا دیا ہے لیکن میری دانست میں تحریک انصاف جیت کر بھی ہار گئی ہے کیونکہ اس کی سیاست کا وہ راز مکمل طور پر فاش ہو گیا ہے، جسے اب تک پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی، وہ عمران خان کا Highest Moral Ground کا نعرہ تھا۔ بقول کسے

ہار دیا عجلت میں خود کو کس آسانی سے

صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ اور مرزا احمد آفریدی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بننے پر تحریک انصاف کے لوگ جشن منا رہے ہیں حالانکہ ان دونوں حضرات کی سیاسی وابستگی کے بارے میں خود تحریک انصاف والے بھی وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کر سکتے اور انہیں تحریک انصاف کی بجائے ’’ریاست‘‘ کا امیدوار قرار دیا گیا۔ ریاست کے امیدواروں کےلئے تحریک انصاف نے اپنی ’’اصولی‘‘ سیاست کو بھی بالآخر داؤ پر لگا دیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن والوں نے انہیں یہ راستہ دکھایا۔ اس راستے پر آنے کا الزام بھی اپوزیشن پر۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اسد!

2018کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کےلئے بڑے اخلاقی جواز (ہائی مورل گراؤنڈز) تھے، جن سے وہ اقتدار میں آنے کے بعد محروم ہوتی چلی گئی۔ موجودہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر اس کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا تھا کہ ان کی ماضی کی حکومتیں نااہل تھیں اور انہوںنے عوام کے مسائل اور مصائب میں اضافہ کیا۔ تحریک انصاف کی اپنی حکومت کی کارکردگی سے اس کا یہ مورل گراونڈ نہیں رہا۔ حکومت میں آنے سے پہلےاس کی قیادت اپوزیشن کی موجودہ سیاسی قیادت پر کرپشن کے الزامات عائد کرتی تھی اور کرپشن ختم کرنے کے وعدے کرتی تھی، بڑے اسکینڈلز سامنے آنے کے بعداس کا یہ مورل گراؤنڈ بھی ختم ہو گیا۔ آخری نورل گراؤنڈ یہ تھا کہ وہ اصولی سیاست کرتی تھی۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے بعد یہ مورل گراؤنڈ بھی نہیں رہا۔

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لئےریاستی امیدواروں کی جس کامیابی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اس سے قومی اسمبلی میں ہونے والی شکست کے سیاسی اثرات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تاثر پختہ ہو گیا ہے کہ حکومت کو قومی اسمبلی میں شکست ہوئی اور اس کے ساتھ یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں شکست کے سیاسی اسباب ہیں جبکہ سینیٹ میں فتح کے غیر سیاسی عوامل ہیں۔ اگر یوسف رضا گیلانی کے مسترد کردہ سات ووٹوں پر عدالت نے یہ فیصلہ دے د یا کہ ووٹ مسترد نہیں ہیں اور عدلیہ سے توقع بھی یہی کی جا رہی ہے کہ وہ ایسا فیصلہ دے سکتی ہے تو سینیٹ میں فتح کےان عوامل کا خوف ناک ردِعمل ہو سکتا ہے اور قومی اسمبلی کی شکست کے سیاسی اسباب میں مزید شدت پیداہو سکتی ہے۔

اس صورتحال میں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی اور اب اس کے بیانیہ سے بھی سخت مایوس ہیں۔ اپوزیشن سے ’’سیاسی مقابلہ‘‘ میں جو پولرائزیشن ہو رہی ہے، اس میں حکومت کی ’’فتوحات‘‘ حکومت کے لئے مددگار ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ تحریک انصاف کے لوگ کسی زعم میں پاکستان کے سیاسی حالات کا غلط اندازہ لگا رہے ہیں 26ارچ سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے حوالے سے کہیں اور درست اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی کامیاب تحریک سے زیادہ ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی بظاہر ناکام تحریک کے سیاسی اثرات زیادہ خطرناک محسوس ہوئے۔ ان حلقوں کو یہ اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کے 2014اور پھر 2016کے دھرنوں سے زیادہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور دھرنے کے زیادہ سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ یاران نکتہ دان میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ میری دانست میں 26مارچ سے پہلے سیاست میں بڑی ہلچل ہو سکتی ہے کیونکہ بعض قوتیں 26مارچ کی متحمل نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ اس مرحلے پر بنیادی سیاسی دھارے کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار نہیں رکھا جا سکے گا۔ پاکستان کی عوامی سیاست اب بھی اس مرحلے پر ہے کہ اسے کوئی راستہ مل جائے تو کوئی بڑی تباہی نہیں ہو گی۔ ورنہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ سینیٹ کے الیکشن کےاس متنازعہ عمل پر فی الحال یہ تبصرہ ہی کافی ہے کہ ہار ہی جیت ہے آئین وفا کی رو سے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین