• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کی بستی اور اللہ کی بستی کے درمیان بسنے والی برباد ہستی کے ہم لوگ جانتے تھے کہ میاں نواز شریف نے صدر مملکت آصف بھٹو زرداری سے ملاقات کرنے کی غلطی کی تو پھر تاریخ کے صفحوں میں بہت پچھتائیں گے۔ آصف بھٹو زرداری اپنی مونا لیزا جیسی مسکراہٹ سے میاں نواز شریف کو اپنا گرویدہ بنا دیں گے۔ بہت بڑے کرشماتی ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سدا مسکراتے ہوئے صدر۔ تیر چلاتے ہیں نہ تلوار، جسے راستے سے ہٹانا ہو، اسے سب کے سامنے بڑی صفائی سے ہٹا دیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان بھنک پڑنے نہیں دیتے۔ ایسے پُتر روز روز نہیں جمدے! اللہ ان کی عمر دراز کرے اور اگلے پانچ برسوں تک ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ دودھوں نہائے پوتوں پھلے۔ نہ جانے اس وسیع دنیا میں وہ کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے جب بے نظیر بھٹو گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھیں۔ بیوی کی المناک موت کا سن کر زرداری صاحب بھاگتے دوڑتے ہانپتے پاکستان پہنچے تھے۔ اپنا دکھ بھلا کر ہونٹوں پر مسکراہٹ لا کر، انہوں نے ملک کے بکھرے ہوئے شیرازے کی ازسرنو شیرازہ بندی کی۔ مل جل کر کھانے پینے کا لنگر لگایا اور اپنی بے لوث خدمت سے پانچ برسوں کے قلیل عرصے میں پسماندہ پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایسے لائق پُتر ہٹاں تے نہیں وکدے! کوئی کم ظرف ہی صدر آصف بھٹو زرداری کی ملک کے لئے خدمات کا منکر ہوسکتا ہے۔
میاں نواز شریف جب تک ان کو سلام کرنے نہیں گئے تھے تب تک لگتا نہیں تھا کہ اکتوبر کے بعد زرداری صاحب ہمارے صدر رہیں گے۔ وہ اکتوبر سے پہلے ملک سے باہر چلے جائیں گے اور بیرون ملک ہوں گے جب ان کی پانچ سالہ صدارت کی مدت پوری ہوگی۔ زرداری صاحب پاکستان میں رہتے ہوئے پانچ سالہ صدارت کی مدت پوری ہونے کا رسک نہیں لے سکتے۔ ہمارے آئین کے مطابق جب ایک آدمی صدر بن جاتا ہے تب اپنے اگلے پچھلے گناہوں سے اس وقت تک مستثنیٰ ہو جاتا ہے جب تک وہ ملک کا صدر رہتا ہے اسے مکمل طور پر پارسا سمجھا جاتا ہے۔ اس سے کسی قسم کی غلطی، جرم، گناہ سرزد نہیں ہوسکتا اور پھر جب وہ صدر نہیں رہتا اور صدر سے آدمی بنا دیا جاتا ہے تب اس کے اگلے پچھلے کارناموں کے بند پڑے ہوئے فائل خودبخود کھل جاتے ہیں۔ دوبارہ صدر بننے اور پاکستان کی بے لوث خدمت کرنے کے لئے زرداری صاحب کو میاں نواز شریف کھپے۔ سنا ہے، واللہ اعلم بالصواب ذاتی معالجوں کی طرح زرداری صاحب چند پیر سائیں بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ایک پیر سائیں نے انہیں جنتر منتر پڑھنے کے بعد ایک ہزار ایک سو ایک مرتبہ نواز شریف کھپے کا ورد کرنے کی تلقین کی ہے۔ وہ آج کل بڑی پابندی سے دہراتے رہتے ہیں، نواز شریف کھپے، نواز شریف کھپے۔ ایک موٹے سائیں نے زرداری صاحب کو مشورہ دیا کہ کھانے کی دعوت کے دوران وہ نواز شریف کو اپنے بغل میں ساتھ والی کرسی پر بٹھائیں اور جوس کے گلاس سے سپ لینے کے بعد آنکھ بچا کر اپنا گلاس نواز شریف کے گلاس سے بدل لیں۔ اسی طرح آنکھ بچا کر اپنے منہ کا لقمہ میاں صاحب کی پلیٹ میں ڈال دیں۔ جھوٹا پینے اور کھانے سے نواز شریف رام ہو جائے گا اور شہباز شریف لچھمن۔
اسی طرح سنا ہے، واللہ اعلم بالصواب میاں نواز شریف کو بھی زرداری صاحب کی دعوت پر جانے سے پہلے میاں شہباز شریف نے مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا، بھائی صاحب زرداری کی مونا لیزا جیسی طلسماتی مسکراہٹ کی طرف مت دیکھنا، اس کی آنکھوں میں مت جھانکنا۔ میں نے سنا ہے کہ وہ کالے الّو کی ہڈیوں کا سرمہ آنکھوں میں لگاتا ہے۔ جو شخص اس کی آنکھوں سے آنکھیں چار کرتا ہے وہ چت ہو جاتا ہے، بھائی اپنا خیال رکھنا۔
اڑتی اڑاتی اور سنی سنائی خبریں مجھ تک پہنچانے والوں نے اتنا تو بتایا کہ زرداری صاحب نے میاں نواز شریف کو اپنے قریب ساتھ والی کرسی پر بٹھایا تھا لیکن انہوں نے زرداری صاحب کو اپنا سپ کیا ہوا جوس کا گلاس نواز شریف کے گلاس سے بدلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اپنے منہ کا لقمہ میاں صاحب کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے دیکھا تھا۔ میرے مخبر یہ تاریخی کارنامہ دیکھنے سے اس لئے چوک گئے تھے کہ زرداری صاحب نے سرمہ لگی آنکھ سے ان کی طرف دیکھا تھا اور میرے مخبر چت ہوگئے تھے۔ چت آدمی کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ میرے مخبروں کو جب ہوش آیا تب دعوت ختم ہو چکی تھی اور مہمان جا رہے تھے۔ میرے مخبر ہڑبڑا کر اٹھے۔ وہ گم شم ٹوپی پہن کر رخصت ہوتے ہوئے دیسی اور پردیسی مہمانوں کے درمیان گھومتے رہے۔ گم شم ٹوپی پہننے کے بعد میرے مخبر کسی کو نظر نہیں آ رہے تھے لیکن وہ سب کو دیکھ رہے تھے۔ جو شخص سب سے زیادہ خوش تھا وہ تھا گپی۔ پس پردہ ڈوریوں سے سندھ گورنمنٹ کی کٹھ پتلیوں کو برسہا برس ناچ نچانے والا گپی پہلی مرتبہ منظرعام پر لایا گیا تھا۔ معصوم سا کیوپڈ جیسا چہرہ، معصوم سی نگاہیں، معصوم سی مسکراہٹ، لہجہ کپاس کی طرح کراچی کے پرانے باسیوں جیسا۔ لگتا نہیں تھا کہ یہ وہی گپی تھا جو پس پردہ حکومت سندھ میں کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں کھینچتا رہتا تھا اور انہیں تگنی کا ناچ نچاتا تھا! مخبروں کی زبانی گپی کی باتیں سن کر میں نے گپی کے بارے میں اپنی رائے پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اس سے ملوں گا، میں مطلبی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا آدمی ہوں۔ سنا ہے کہ گپی بڑا سخی ہے۔ پہلی ملاقات میں وہ کام کے آدمی کو نئی گاڑی کی چابیاں تھما دیتا ہے۔ یہ تو گپی سے پہلی ملاقات کے بعد پتہ چلے گا کہ میں اس کے لئے کام کا آدمی ہوں بھی یا نہیں ہوں! اگر گپی نے میرے ہاتھ میں نئی کار کی چابیاں تھما دیں تو میں سمجھ جاؤں گا کہ میں اس کے لئے کام کا آدمی ہوں۔ ویسے بھی آخر عمر میں مجھے ایک نئی گاڑی اور گپی کی بے شمار عمارتوں میں کسی ایک عمارت کی بیسویں منزل پر بنے ہوئے فلیٹ میں رہنے اور آخری ایام گزارنے کا شوق چرایا ہے۔ جب میرا جی چاہے گا تب بیسویں منزل پر بنے ہوئے فلیٹ کی بالکونی سے آسمانوں کی طرف اڑ جاؤں گا۔
میں نے مخبروں سے کہا ”مجھے بتاؤ کہ دعوت کے بعد صدر زرداری نے میاں نواز شریف کو کیسے رخصت کیا؟ وہ منظر کیسا تھا؟“
”بڑا ہی روح پرور منظر تھا“ میرے مخبروں نے بتایا ”دونوں بڑی گرم جوشی سے بغلگیر ہوئے اور بہت دیر تک ایک دوسرے کی بغلوں میں جھانکتے رہے۔ جب میاں صاحب روانہ ہوگئے تب زرداری صاحب مسکراتے اور گنگناتے ہوئے اندر آئے، نواز شریف کھپے، نواز شریف کھپے، نواز شریف کھپے“۔
تازہ ترین