• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ چِین کتنے عرصے میں سُپر پاوَر بن پائے گا ؟‘‘ یہ وہ اہم سوال ہے، جو عام طور پردنیا بھر میں پوچھا جاتا ہے ۔رواں ماہ اسی سلسلے میں بیجنگ میں چِین کے دوپالیسی ساز ایوانوں، چائنیز پیپلز پولیٹکل کنسلٹیٹو کانفرنس (سی پی سی سی )اور نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی ) کے اجلاس منعقد ہوئے ۔سی پی سی سی اوراین پی سی کے اہم اجلاس، پانچ سے دس مارچ تک جاری رہے۔ اجلاسوں کے اختتام پر صدر ،شی جن پنگ نے، جو کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں، کہا کہ’’ چِین اپنی ترقّی کے اہم ترین موڑ پر ہے اور آنے والے دَور میں دنیا کے مرکزی اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرے گا ۔‘‘ واضح رہےکہ ان دو نوں اجلاسوں میں آئندہ سال کی حکومتی پالیسیز اور منصوبے ترتیب دئیے جاتے ہیں ۔

رواں سال ان اجلاسوں کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ تھی کہ امسال چِین کا 14واں پنج سالہ منصوبہ شروع ہورہا ہے، جب کہ گزشتہ تیرہ منصوبے اس نے انتہائی شان دار طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچائے ،جو کسی بھی مُلک کے لیے ایک ریکارڈ کی سی اہمیت رکھتےہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے جو مُلک کی واحد اور فیصلہ کُن سیاسی جماعت ہے ،ایک سو سال بھی اسی برس پورے ہورہے ہیں، اس طرح یہ ایک اور سنگِ میل ہے، جو چِین کی سیاسی تاریخ کے لیے اہم ہے، کیوں کہ رُوس ،جو خود بھی کمیونسٹ مُلک ہے اور جہاں سے اس کا آغاز ہوا،یہ کام یابی نہ دیکھ سکا۔اس سال سی پی سی سی اوراین پی سی کے اجلاسوںمیں چِین کے2035ء تک کےاہداف طے کیے گئے ہیں۔ 

یاد رہے ،یہی وہ اہم عرصہ ہے، جس دوران یہ سُپر پاوَر بننے کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ چین نے گزشتہ چالیس سال میںدنیا کے ہر مُلک کو پیچھے چھوڑ دیا ،خاص طور پر تجارت، مینوفیکچرنگ ،تعلیم ، ٹیکنالوجی ،غربت مٹانے اورمعیارِ زندگی بلند کرنے کے ضمن میںجو حیرت انگیز کارنامے نجام دئیے ،وہ موجودہ زمانے میں کسی کرامت سے کم نہیں ۔ عالمی مارکیٹ میں چین کی برتری واضح ہے ۔مانا کہ آج بھی امریکا ہی سُپر پاوَر ہے، لیکن اقتصادی میدان میں چین اس کےمدّ ِ مقابل ہے اور دنیا کی معیشت کا کوئی فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔

سی پی سی سی مُلک کا اعلیٰ ترین مشاورتی ادارہ ہے، اس میں کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ مختلف شعبۂ ہائے زندگی (ٹیکنالوجی ،تجارت سے لے کر کھیل اور سیّاحت تک) کے 2200 مندوبین بھی شامل ہوتے ہیں، اس طرح اس اجلاس میں ہر شعبے کی نمائندگی ہوجاتی ہے ۔جب کہ این پی سی ملکی آئین کے مطابق سب سے با اختیارادارہ ہے۔ اس میں شامل ہونے والوں کو ڈپٹی کہا جاتا ہے، جو مُلک کے تمام صوبوں ، اداروں، ہانگ اور مکائو اور مسلّح افواج کی نمایندگی کرتے ہیں۔اس سال ان اجلاسوں میں پانچ سالہ منصوبے کے علاوہ طویل المدّتی منصوبوں پر بھی غور کیا گیا،جو اگلے پندرہ سال میں تکمیل کو پہنچیںگے۔ ان میں اہم ترین معا شی ترقّی کےاہداف بھی شامل ہیں۔ساتھ ان کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

اگر چِین موبائل فونز اور گاڑیوں کی تیاری میں سب سے آگے ہے، تو وہ امریکا کے مقابل مریخ پر بھی اپنی تسخیر کا لوہا منوا رہا ہے ۔ اس کی افواج نہ صرف دنیا کی بڑی افواج میں سےہیں، بلکہ جدید ترین اسلحےسے بھی لیس ہیں۔ موجودہ دَور میں چین کو جن سیاسی مسائل کا سامنا ہے ،ان میں ہانگ کانگ سرِفہرست ہے ، پچھلےدوبرس سے وہاں بے چینی پائی جا رہی ہےاور مظاہرے بھی دیکھنے میں آرہے ہیں ،اسی لیے ہانگ کانگ کے انتخابی طریقۂ کارکو ترتیب دینے کی بھی بات ہوئی ۔صدر شی جن پنگ نے ان دونوں اجلاسوں کے اہم سیشنز میں شرکت کی اور مستقبل کے لیے گائیڈ لائینز بھی دیں۔

دَر حقیقت، ان کا ویژن ہی اس وقت چین کی ترقی کا محورہے ۔چِین نے معاشی ترقّی کو ہر امر پر ترجیح دینے کی جو پالیسی گزشتہ چالیس سال سے اپنائی ہوئی ہے، اسی کے تحت اس سال، پنج سالہ منصوبے میں جدید ٹیکنالوجی کی پیش رفت کو معاشی ترقّی کا ستون قرار دیا گیا اور ایک علیحدہ باب کے طور پر ترقّی کا حصّہ بنایا گیاہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب چین کی سمت اس میدان میں کس قدر تیز ہوگی۔

یاد رہے، ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا اور چین کے درمیان سخت مقابلہ پایا جاتا ہے ۔فیصلہ کیا گیا ہےکہ اگلے پندرہ سالوں میں ٹیکنالوجی میں جدّت اور خود انحصاری قومی ترجیحات میں شامل ہوں گے۔ علاوہ ازیں،ان اجلاسوں میں صدر شی جن پنگ کی توجّہ ماحولیات پر بھی رہی۔ اسی حوالےسے انہوں نے دنیا کو پیغام دیا کہ ’’ہم ماحول بہتربنانے کے لیے دنیا بھر سے تعاون کریں گے۔‘‘نیز،انہوں نےخود اپنے مُلک میں متعدّد اقدامات پر زور دیا ،خاص طورپرگرین انرجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر ،تاکہ ماحولیاتی آلودگی کم سے کم کی جا سکے۔ 

چین کے بڑے شہر، بیجنگ اور شنگھائی چوں کہ آلودگی کے بد ترین مسائل کا شکار ہیں، اسی لیے وہاں ان سے نمٹنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صحراؤں کو ہرے بھرے علاقوں میں تبدیل کرنے کی بھی کوششیں کی جائیں۔ یہ دونوں اجلاس کووڈ- 19 کے دَورمیں منعقد ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے اس عالمی وبا کے خلاف خاطر خواہ کام یابی حاصل کرلی ہے ۔

واضح رہے،گزشتہ برس کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں جو جانی و مالی نقصان ہوا، اس حوالے سے امریکا سمیت دنیا بھر کے مغربی ممالک نے چِین پر خوب تنقید کی کہ وبا کا آغاز چِین ہی سے ہوا تھا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح چین کو بھی کورونا کی وجہ سے اقتصادی دبائو کا سامنا رہا اور خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ تاہم، دیگر ممالک کی نسبت اس کی اقتصادی بحالی کا عمل تیز رہا،جس کی گواہی عالمی مالیاتی ادارے بار بار دیتے ہیں اور عالمی ترقّی کی رفتار تیز کرنے میں بھی چین سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ دو اجلاس چِین کے آنے والے پندرہ برس کی ترقّی کی پیش بندی میں اہم ثابت ہوں گے۔چِین کے فلیگ شِپ منصوبےکے ذریعے، جسے سِلک رُوٹ کی مارڈن فارم کہا جاتا ہے اور سی پیک بھی جس کاایک حصّہ ہے ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں کے درمیان روابط استوار کرنے کا کام بھی جا ری ہے۔ 

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اجلاس میں جو کچھ سامنے آیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی قیادت پوسٹ کورونا دَورمیں سُپر پاورز کے ساتھ انتہائی سنجیدگی سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کا کام کرے گی ، کیوں کہ اسے امن کی بھی ضرورت ہے اور ایڈوانس ٹیکنالوجی کی بھی ۔اسی لیے اس نے خاص طور پر ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کے ضمن میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے ۔یاد رہے، امریکا ٹرمپ دَور میں ان دونوں مسائل سے پیچھے ہٹ گیا تھا ، لیکن جو بائیڈن کی حکومت اس معاملے میں دوبارہ فعال ہورہی ہے اور ان کی پالیسی ہے کہ امریکا پھر سے عالمی طور پر اس میں لیڈ رول ادا کرے ۔ چین اس معاملے میں خاص طور پریورپ اور امریکا کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہے گا، اس طرح تعلقات میں پڑی دراڑ بھی بھر سکے گی۔اس کے علاوہ ،چِین میں منعقد ہونے والے حالیہ اجلاسوں میں فائیو جی انٹرنیٹ کا بھی استعمال کیا گیا ،جو ایک طرح سے علامتی اشارہ تھا کہ چینی قیادت اس حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے ۔

پاکستان کی بات کی جائے تو ہم چین کے انتہائی قریبی دوست ہیں اور اس پر بجا طور پر فخر بھی کرتے ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اس کی ترقّی اور منصوبہ بندی کے حوالے سےکتنا جانتے ہیں ،اس کا اندازہ اس امر سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ان دو اہم ترین پالیسی اجلاسوں کے حوالے سے ہمارے یہاں کوئی دل چسپی ہی نہیں لی گئی، بلکہ یہاں توشاید بیش تر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ چِین میں اس نوعیت کے کوئی اجلاس بھی ہوئے اور ان کے چیدہ چیدہ نکات کیا ہیں۔با الفاظِ دیگریہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خوش کُن نعروں اور امداد کے حصول کی حد تک تو ہم چین کے قریب ہیں، لیکن عوامی سطح پر وہ شعور عام کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو چینی قیادت اپنے عوام میں بہت پہلے ہی اُجاگر کر چُکی ہے۔ 

غالباً ہمارا فوکس صرف اس بات پر ہے کہ چین ہر مشکل میں کسی نہ کسی شکل میں ہمارے ساتھ کھڑا رہے۔یہ سوچ و نظریہ وقتی طور پرتو کا رآمد ہو سکتا ہے، لیکن اس کےدُور رس نتائج سامنے آئیں گے، نہ ترقّی میں معاون ثابت ہوگا۔ ماضی میں بالکل یہی رویّہ ہم نے امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ اپنایا ہواتھا ۔ہر فوجی معاہدے اور اقتصادی پیش رفت میں ان کے ساتھ شامل ہوئے، لیکن سوائے چند منصوبوں اور امداد میں لیے گئے ڈالرز ،پائونڈ زاور یوروز کے کچھ حاصل نہ کرسکے ۔اگر چِین کے اس سال کے ان اجلاسوں کے فیصلوں پر غور کیا جائے، تو واضح ہوگا کہ معاشی طور پر مستحکم ہونے کے با وجود اس نے اب بھی اپنی اقتصادی ترقّی کو ہر پالیسی پہ اوّلیت دی ہوئی ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی مُلک سے تعاون پر آمادہ ہے۔

اس میں یہ امر بھی مانع نہیں کہ صرف ایک سال قبل ٹرمپ دَور میں اس کی امریکا کے ساتھ ٹریڈ وار کا تنازع چل رہا تھا ۔اس پر کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے کُھلے عام الزامات لگائے جارہے تھے۔ بلکہ ان اہم ترین اجلاسوں میں بھی چِین نے کوئی بھی جوابی کارروائی کرنے یا اختلافات کو فروغ دینے کے بجائے مفاہمت، دوستی اور تعاون بڑھانے پر زور دیا ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چینی قیادت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ملکی ترقّی صرف تعاون ہی کی بدولت ممکن ہے ۔ 

وہ پاکستان کوبھی ایسے ہی مشورے دیتی ہے اور جب بھی کوئی تنازع ، بالخصوص بھارت کے ساتھ کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے ، تو وہ ہمیشہ اسے دو طرفہ بات چیت اور مفاہمت سے حل کرنے پر زور دیتی ہے۔ ہم نے گزشتہ مضامین میں کئی مرتبہ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ٹیکنالوجی پہ عبور حاصل کرنے اور اسے اپنی تجارت میں بروئے کار لانے کے بعد چین چاہتا ہے کہ ایڈوانس ٹیکنالوجی کی طرف قدم بڑھائےاور اس کے لیے اسے امریکا اور یورپ کی ضرورت ہے ۔

مثال کے طور پر سُپر کمپیوٹرز جن سے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی تیز رفتار ترقی ممکن ہے ،امریکا کے پاس سب سے زیادہ ہیں اور وہاں اس ضمن میں روز نئے طریقۂ کار بھی دریافت ہوتے رہتےہیں ،جن سے امریکا کی سُپر پاوَر حیثیت برقرار ہے ۔ چینی قیادت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے ،اسی لیے ہانگ کانگ اور تائیوان جیسے اندرونی معاملات و تنازعات کو بھی طاقت کے ذریعے حل کرنے سے اجتناب برتتی ہے، کیوں کہ اس طرح اسے نہ صرف مغربی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا،بلکہ انسانی حقوق کے حوالےسے بھی کئی معاملات میں تعاون حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا،کیوں کہ ان ممالک کی حکومتیں اور رائے عامّہ اس معاملے پر بہت ہی حسّاس ہے ۔

ہمیں بھی چِین کی ترقّی ، پالیسیز،اجلاسوں کے فیصلوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ صرف اس بات کا پرچار کرناکہ’’ دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے یا یہودو نصاری اور غیرمسلموں کی دشمنی نے ہمیں غرق کردیا ہے ‘‘کسی صُورت مُلکی ترقّی میں معاون ثابت نہیں ہو سکتا۔ آخرمغربی ممالک او ر چین کے نظاموں میں بھی تو بعد المشرقین ہے ،ایک مکمل کمیونسٹ اور دوسرا جمہوری۔گوکہ گزشتہ پندرہ برس سے مغربی میڈیا میں چین کی ترقّی کا بہت ذکر ہورہا ہے، لیکن کبھی بھی ،کہیں بھی یہ تجویز سامنے نہیں آئی کہ جمہوری نظام بدل کر صرف ترقّی کی خاطر چین کا یک پارٹی نظام اپنایا جائے۔ 

وہاں اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ دونوں اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر بھرپور تعاون کرتے رہیں، تو اس سے دو طرفہ اور عالمی سطح پر معیارِ زندگی بہتر ہوگا ۔ نہ چین بدلنا چاہتا ہے، نہ مغربی جمہوری ممالک ۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ایک مُلک ترقّی کرتا ہے، تو ترقّی کا ثمر اُس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا ، جب تک اس کا کچھ حصّہ ووسرے کونہ دے، وگرنہ علاقائی اور عالمی سطح پر غیرمستحکم صورتِ حال پیدا ہوجائے گی۔ ہمیں افغانستان کا بھی تجربہ ہے اور بھارت سے اختلافات کا بھی ۔دونوں نے ہماری معاشی ترقّی کوخُوب نقصان پہنچایا ۔اگر چین کی مثال سامنے رکھی جائے ، تو شاید صورتِ حال میں مثبت تبدیلی ممکن ہے ،لیکن اس کے لیے اس کی پالیسی کا عمیق مطالعہ ضروری ہےکہ اب صرف امداد اور منصوبوں میں تعاون سے کام نہیں چلے گا۔

تازہ ترین