• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ بدھ کی شب امریکہ میں معروف پبلک ٹیلیوژن چینل پی بی ایس سے ایک دستاویزی فلم ”آؤٹ لاڈ ان پاکستان“ یا”پاکستان میں خلاف قانون“ نشر ہوئی جو مبینہ طور پر اجتماعی کا شکار بننے والی مظلوم بیٹی کائنات سومرو کی دل کو خون کے آنسو رلانے والی کہانی ہے کہ کس طرح پاکستانی سماج اور نظام انصاف اس بچی کائنات کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام ہو گیا۔ اس کے برعکس اپنے ساتھ اجتماعی زیادتی کی فریاد کرنے والی لڑکی اور اس کے خاندان کی زندگیاں مزید خطرات میں گھر گئی ہیں۔ کائنات کے مجرم نہ صرف آزاد ہیں بلکہ وہ اور ان کے ساتھی کائنات اور اس کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے بھی نظر آتے ہیں۔
سندھ کے دادو ضلع کے شہر میہڑ سے تعلق رکھنے والی کائنات سومرو اس وقت تیرہ برس کی تھی جب جنوری دو ہزار سات کو وہ شاہی بازار میہڑ کی ایک دکان سے اپنی بھانجی کی چھٹی کا سامان لینے نکلی اور مبینہ طور پر اغوا کر لی گئی۔ کائنات کا کہنا ہے کہ جس دکان پر وہ سامان خریدنے گئی تھی وہاں اسے پیچھے سے اسے کوئی نشہ آور چیز سنگھا کر بیہوش کردیا گیا، اس کے ساتھ چار افراد نے اجتماعی زیادتی کی۔ تین روز کے بعد وہ اغواء کنندگان کے چنگل سے بھاگ نکلی۔ کائنات نے اپنی بپتا اپنے ماں باپ اور بھائی کو آکر سنائی۔ پولیس نے کئی دن مقدمہ درج کرنے سے ٹال مٹول سے کام لیا۔ نہ تو ڈاکٹروں نے کائنات کا طبی معائنہ کیا اور نہ ہی پولیس نے ڈی این اے گواہی محفوظ کی۔ الٹا کائنات کے ساتھ اجتماعی زنا با لجبر کے ملزمان کائنات کے رشتہ داروں کو دھمکیاں اور پیغام بھجواتے رہے کہ وہ ان سے جرگہ یا نجی فیصلے میں صلح کرلیں۔ کائنات کے قریبی رشتہ داروں سے کہا کائنات’کاری‘ ہے اور اسے غیرت کے نام پر قتل کردیا جائے۔ کائنات کے اب مقتول نوجوان بھائی صابر کو اس کے قریبی رشتہ دار، تو اس کے طعنے دیتے رہے۔ لیکن کائنات کے والد اور بھائی و دیگر گھر والے پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے مجرموں کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا تہیہ کرلیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اخبارات سمیت تمام میڈیا گواہ ہے کہ مظلوم لڑکی کائنات اور اس کے گھر والوں کو کن کن مصائب کے اپنے سروں پر گرتے پہاڑوں اور آسمانوں سے گزرنا پڑا۔ کائنات اور اس کے گھر والوں کو اپنا گھر، شہر اور کاروبار چھوڑنا پڑا۔ وہ گھر سے بے گھر و بیروزگار ہوئے۔ شہر بدر ہوکر کراچی میں پہنچے پھر پیشیاں تھیں اور ان کے احتجاج کرنے کو کراچی پریس کلب کے سامنے والے فٹ پاتھ۔ کائنات کئی دن دھرنے اور بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کے بعد میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اہل صحافت خبر کا زیادہ پیچھا نہیں کرتے بلکہ خبر ان کے پاس چل کر پریس کلب آتی ہے۔ دوسری جانب لوگوں نے اپنے مسائل اور مصائب کی داد فریاد کی شنوائی کے لئے پریس کلب کے دروازوں سے امیدیں باندھ لی ہیں۔ خیر، عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر سرگرم غیر سرکاری تنظیم نے کائنات کی مدد کرنے کے لئے اس کو وکیل مہیا کیا۔ ایک انتھک جدوجہد شروع ہوئی۔ ایک لڑکی کا سندھ میں یہ کہنا کہ اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو ئی ہے خود موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ملزمان میڈیا میں کائنات کا کیس اجاگر ہونے پر گرفتار ہوئے۔ عدالت میں چالان ہوا جہاں ملزمان میں سے ایک ملزم نے اپنے دفاع میں یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے ساتھ کائنات نے گھر سے بھاگ کر بارہ جنوری دو ہزار سات کو شادی کی تھی۔ ملزمان نے ایک نکاح نامہ بھی پیش کیا جس میں کائنات کی عمر اٹھارہ برس ظاہرکی گئی ہے۔ میں نے اس نکاح نامے کی نقل دیکھی ہے۔ میں نے دوسری طرف انیس سو ترانوے میں پیدا ہونے والی کائنات کی تاریخ پیدائش، اس کے والدین کے نادرا ریکارڈ میں دیکھی ہے جو نام نہاد نکاح والے دن تک تیرہ سال بنتی ہے۔ دستاویزی فلم میں حیدرآباد سندھ کے نکاح رجسٹرار کو اپنے انٹرویو کے دوران کہتے دکھایا گیا ہے ”نہیں۔
وہ اٹھارہ برس کی لگتی تھی ہم کوئی ڈاکٹر تھوڑی ہیں کہ ہاتھ لگاکر دیکھیں“۔
بدقسمتی سے عدالت نے کائنات کے کیس میں اس کے ملزمان کے خلاف الزامات کو کائنات کی فینٹسی اور اس کی اپنی اختراع اور جیمزبانڈ کی فلموں جیسی کہانی قرارد دیتے ہوئے ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ کل دیکھا کہ ملزمان ہنستے مسکراتے عدالت سے نکلے۔بقول شاعر
بگاڑ سکتی ہے کیا شہر والوں کا
اک غریب کی بیٹی ہے زہر کھا لے گی
”وہ میری بیوی ہے، میری عزت ہے کوئی بھی اس کے ساتھ شادی کرے گا میں اسے بھی ماروں گا اور اس کو (کائنات کو) بھی قتل کروں گا“۔ بڑا ملزم احسان دستاویزی فلم میں کہتا ہے۔ ایک اور ملزم شعبان کے ماموں کو یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ ” وہ لوگ جنہوں نے لڑکی سے شادی کی ہے وہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس بات پر مرڈر ہوجاتے ہیں“۔
”مجھے کہا جارہا ہے کہ میں اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل یعنی’ کاری‘ قرار دیکر قتل کروں۔”کائنات کے بھائی صابر سومرو کو دستاویزی فلم میں کہتے دکھایا گیا ہے۔ اپنے ایسے انٹرویو کے دو ماہ بعد صابر سومرو نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ کائنات سومرو اور مقتول صابر سومرو کی ماں کو اس کی لاش پر بین کرتے اور کراچی پریس کلب کے فٹ پاتھ کے سامنے اس وقت کے سی سی پی او پولیس کی میڈیا فوٹیج دکھائی گئی ہیں جن میں وہ کہتے تھے کہ کائنات سندھ کی بیٹی ہے اور اس کے بھائی کے قاتل ضرور کیفر کردار تک پہنچائے جائیں گے۔ مگر صابر سومرو کے قاتل آج تک کیفر کردار تک نہ پہنچنے تھے سو نہ پہنچے۔ اس وقت کی سابق ایم این اے ماروی میمن کائنات کے کیس کے ذرے ذرے سے واقف ہیں۔ وہ کراچی پریس کلب کے فٹ پاتھ پر کائنات اور اس کے گھروالوں کے ساتھ شریک ہوا کرتی تھیں۔ ماروی اب حکمران پارٹی مسلم لیگ نواز شریف کی ایم این اے ہیں۔ اب نواز شریف وزیراعظم ہیں جن کیلئے ان کی سابق حکومت میں ان کے مخالفین الزام لگایا کرتے تھے کہ وہ ٹی وی کیمروں اور میڈیا کی چکاچوند میں زنابالجبر کا شکار ہونے والی خواتین سے ہمدردی کی سیاست کرتے تھے۔ ان کے دور میں ریپ کے کئی کیسوں کے مجرمان کیفر کردار تک پہنچے جن میں با اثر لوگ بھی شامل تھے۔ کیا اس بار نوازشریف سندھ کی اس بیٹی کائنات کے ساتھ انصاف کر پائیں گے؟ یا اس جیسی وہ ہزاروں کائناتیں جن کے مجرم شاید کیفر کردار تک پہنچ سکتے تھے اگر ان کے کیسوں کی ڈی این اے محفوظ کی جا سکتی۔ ہزاروں اس لئے کہ کئی کیس تو کائنات کے برعکس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں بھٹکے ہوئے مذہبی شدت پسندوں اور عورت دشمنوں کے ڈی این اے کا کوئی میل یا میچ نہیں ہوتا۔ ڈی این اے ایک ایسی سائنس ہے جس کی بنیادی گواہی پر امریکہ میں برسوں سے جیلوں میں بے گناہ غلط طور سزا پانے والے چھوٹ گئے اور حقیقی ملزم برسوں بعد بھی ڈی این اے گواہی کی بنیاد پر کیفر کردار تک پہنچ سکے۔ بے گناہوں کو اپنی برباد زندگی کی تلافی کیلئے لاکھوں کروڑوں ڈالر امریکی حکومت نے ادا کئے۔ نام نہاد مذہبی شدت پسندوں کو اپنی اولاد کیلئے امریکہ اور یورپ کو امیگریشن کیلئے تو ڈی این اے ٹیسٹ بخوشی منظور ہیں لیکن ریپ کے کیسوں میں بطور گواہی نہیں۔
تازہ ترین