پاکستان کے سازگار حالات، جامع صلاحیتوں (پوٹینشل)اور ظہور پذیر قومی ضرورتوں کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے سیاسی رویوں میں تبدیلی لاکر عوام کی بڑھتی تکالیف کم کرنے کےلئے اپنی قومی ذمہ داری پوری کریں ۔اب یہ بالکل واضح ہے کہ ہر دو پارلیمانی قوتوں کی سیاست کا مرکز و محور ان کی اپنی روایتی سیاست ہی ہے ۔وہ عوام کی شدید بڑھتی مشکلات پر مسلسل دعوئوں، جھوٹی یقین دہانیوں، نعروں اور ایک دوسرے کے خلاف انتہا پسندانہ بلیم گیم تو چلائے ہوئے ہیں، جس سے ملکی سیاسی پیش منظر مکمل آلودہ ہو گیا ہے ۔ سینٹ الیکشن میں کسی کی بھی جیت ہار سے عوام کو کوئی غرض نہیں، لیکن ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کی انتخابی سیاست سے ناجائز دولت کا تعلق اور سیاسی جماعتوں کی نااہلی کا پردہ مکمل چاک ہوگیا کہ تیرہ سالہ جمہوری دور نے این آر او ، آئین کے بگڑے حلیے کی درستی حکومتی باریاں پورے ہونے اور تبدیلی کی علمبردار تیسری پارلیمانی قوت کے اقتدار میں آنے کے باوجود شدت سے مطلوب وہ بہت کچھ نہیں ہو پایا نہ ہو رہا ہے جو حکومت و اپوزیشن کے ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرکے سچے عوام دوست سیاسی جذبے اور عمل سے ہو سکتا تھا اور ہو سکتاہے ۔اس میں قرضوں کی جکڑ سے نہ کسی عالمی ادارے کے ظالمانہ دبائو سے موجودہ صورتحال میں بھی ان راہوں پر چلنا کوئی دشوار گزار ہے ۔صرف اور صرف حکومت اور اپوزیشن کو اپنے مخصوص و محدود مفادات کے مقابل عوام کی انتہائی جائز ضروریات اور اجتماعی مفادات کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔حکومت ہی نہیں اپوزیشن کو بھی ۔لیکن اس کے برعکس قومی سیاست میں جو دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے اس کا تمام تر رخ اور توجہ اقتدار کو سنبھالے رکھنے اورا کھاڑنے پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے ۔تھانہ کچہری کلچر جس کی مذمت ہر بڑی پارلیمانی جماعت انتخابی مہم میں کرتی ہے، فراہمی انصاف و امن عامہ کے نظام میں بڑی رکاوٹ ہی نہیں انتہائی ظالمانہ انداز میں عوام کےلئے اذیت مسلسل کا باعث ہے ۔اس کی جگہ عوام کو ایمپاور ڈ کرنے والا مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کے آئینی تقاضے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے ۔لازمی ابتدائی تعلیم کے آئینی حق سے آج بھی کروڑوں بچے محروم ہیں ۔ابتدائی نوعیت کے اقدامات بھی مفلوک کمسن آبادی کو ان کا یہ انتہائی بنیادی حق دلانے کےلئے نہیں اٹھائے جا رہے ۔صوبائی خود مختاری ہر صوبے کے عوام کے حقوق کا ضامن ہونے کی بجائے الٹا ان کےلئے وبال جان بن گئی ہے۔ صوبائی حکومتیںبلدیاتی دائرے میں آنے و الی بنیادی سہولتوں کو یقینی بنانے کے لئے خود کچھ کر رہی ہیں نہ بلدیاتی نظام کا کوئی عوام دوست اصلاحاتی پیکیج لانے میں حکومتوں کی کوئی دلچسپی ہے نہ اپوزیشن کی۔دلچسپی تو کیا صوبائی حکومتوں نے اس حوالے سے من مانے ناجائز اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھ کر بدستور کرپشن کا نظام بھی جاری رکھا ہوا ہے اور عوام کے حقوق غصب کئے ہوئے ہیں۔ یہ وفاق سے تو مرضی کے انتظامی اختیارات لینے کےلئے الجھتی رہتی ہیں لیکن عدالتی حکم سے بننے والے بلدیاتی اداروں کو مطلوب اختیار بھی نہ دیئے۔اپوزیشن بھی سینیٹ الیکشن کی ایک علامتی نشست کے لئے تو سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہےلیکن مجال ہے جو اس نے ظالمانہ تھانہ کچہری نظامِ بد کی جگہ خود کوئی اصلاحات پیکیج لاکر حکومت پر دبائو ڈالا ہو ۔مہنگائی کا شور شرابہ بھی فقط اس کا سیاسی ٹول ہے جو وہ حکومت اکھاڑ مہم میں استعمال کرتی ہے وگرنہ عوام بھی جانتے ہیں کہ مہنگائی کا طوفان لانے میں گھاگ اپوزیشن کے موثر معاونین نے بھی بڑے بڑے حربے استعمال کئے جس پر اناڑی حکومت کلٹی کھاگئی۔
یہ اب ثابت شدہ ہے کہ جاری پیچیدہ اور غیر موثر احتسابی عمل مضبوط قانونی بنیاد ہونے کے باوجود ہماری پارلیمان ،عدلیہ اور ا نتظامیہ، یعنی جاری ریاستی نظام متنازعہ ہوئے احتسابی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔وزیر اعظم عمران خان کی پولیٹکل ول بھی اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتی۔ نتیجتاً قومی سیاسی دنگا اقتصادی استحکام پیدا کرنے کےکتنے ہی سازگار حالات و مواقع کو مایوسی اور انتشار میں تبدیل کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں جو بھی حکومت یا متحدہ اپوزیشن اپنی موجود روش میں جرات مندانہ تبدیلی لاکر عوام دوست قانون سازی اور اصلاحات کے پیکیج لاکر پارلیمان کو اس کے اصل اور آئینی کردار کی طرف لائے گا اور عوام پر واضح کرے گا کہ ا س کی یہ کوششیں کس طرح عوام دوست اور وسیع تر ملکی مفاد میں ہیں، ایسے میں وہ پارلیمانی عدم تعاون کے باوجود سیاسی سرخرو تو ہو گا اس کی ناکامی وقتی ہو گی بالآخر عوام کا دبائو حکومت یا اپوزیشن کو مجبور کر دے گا کہ وہ پارلیمان میں اپنا حقیقی کردار ادا کریں، نہیں کریں گے تو ان کی سیاسی مقبولیت کا گراف گرتا گرتا انتخابی مہم تک وہی کچھ کرے گا جو پیپلز پارٹی جیسی عشروں حقیقی قومی جماعت رہنے والی پاپولر جماعت کے ساتھ ہوا کہ وہ دیہی پارلیمانی پارٹی بن کر رہ گئی جبکہ ن لیگ بڑے صوبے میں بدستور مقبولیت کے باوجود اپنے موجودہ محدود سیاسی اہداف کے حوالے سے عوام کی مطلوب حمایت حاصل نہیں کر پارہی جو کچھ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ہوا۔تحریک انصاف کو تو اندازہ بخوبی ہوگیا وہ ’’جو بہت کچھ ہو سکتا تھا اور ہو سکتا ہے ‘‘ اسے پورا کرنے میں اس کی مسلسل ناکامی، آنے والے انتخابات میں اس کی جڑوں میں بیٹھ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جماعت کے پاس عوام کو بیچنے والا کوئی چورن نہیں رہا ۔اب عوام ان کے دعوئوں، نعروں اور خوابوں کو خریدنے کیلئے تیار نہیں تو بھائی اپنی اپنی سیاست بچانی ہے تو بتوں کی پوجا ختم کرو عوام پر توجہ دو، قانون سازی اور اصلاحات کی طرف آئو ۔وماعلینا الالبلاغ