• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاج ملکہ کے پیٹ پررکھا گیا اور جس کے پیدا ہونے میں ابھی وقت تھا، بادشاہ بنا دیا گیا۔ وہ جب پیداہوا تو شاپور دوم کہلایا، فارس کا بادشاہ۔ چوتھی صدی کی ابتدا تھی۔ ساسانی دورِ حکومت ۔وہ بادشاہوں کا دور تھا کہ جمہوریت ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ بندوں کو تولنے یا گننے کا رواج بھی ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ بندوں کی کوئی حیثیت بھی نہیں تھی ۔ ان سے کون پوچھتا تھا؟ بادشاہ ہوتے تھے اور بس۔ عمر وغیرہ کی بھی کوئی قید نہیں ہوتی تھی کہ کم از کم 25 سال کا ہو تو بادشاہ بن سکتا ہے۔ بس ایک شرط تھی،بادشاہ کی اولاد ہونا چاہئے۔ ہاں ایک اور بھی شرط تھی، اسے بااختیار ’معز زین ‘ کی حمایت حاصل ہونی بھی ضروری تھی۔ تو وہ جو ایک بادشاہ تھا وہ ابھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ اس کا باپ ہرمز دوم مر گیا۔ معاملہ تھا اختیار اور اقتدار کا۔ ملکہ پیٹ سے تھی، اس کے پیٹ پہ تاج رکھ دیا گیا اور شاہ پور دوم ماں کے پیٹ میں ہی بادشاہ بنا دیا گیا۔ یہ تو خیر ایک منفرد بادشاہ تھا مگر کئی اور بادشاہ بھی تھے،مختلف عمروں میں جو تخت نشین ہوئے۔ نہیں، تخت نشین بنائے گئے ۔ایک دن کا بچہ یا چار سال کا، خود تخت نشین نہیں ہو سکتا۔انہیں بادشاہ بنایا جاتا تھا۔بادشاہ وہ لوگ بناتے تھے جو اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے،بادشاہ کے نام پر۔دور کیا جانا، مغل اعظم جلال الدین اکبر چودہ سال کے تھے جب بادشاہ بنائے گئے۔ بیرم خان ان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ تاریخ میں ایسے بہت سے بادشاہوں کے نام محفوظ ہیں،دنیا کے بہت سے ممالک میں، چین سے برطانیہ تک اور افریقہ ہو یا اسپین،ہر جگہ بااختیار لوگوں کا ایک گروہ اقتدار پر قابض رہنے کے لئے بادشاہ کا نام استعمال کرتا تھا۔یہ با اختیار لوگ تاج بچّے کو دے دیتے تھے،وہ اس میں خوش رہتا، طاقت اور اختیارات اپنے پاس رکھتے کہ یہی ان کااصل مقصد ہوتا۔یہ قصّے ہیں اس وقت کے جب جمہوریت ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اب معاملہ مختلف ہے۔ لوگوں کو گننے تولنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کچھ شرطیں بھی عائد ہونے لگی ہیں۔ عمر اتنی ہو تو… وغیرہ وغیرہ۔ اب کسی بچّے کو ایک سال، دو سال، چار سال یا ماں کے پیٹ میں وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے نہ وزیر اعلیٰ۔ مگر حکمرانی کا طریقہ بدلہ ہے،اختیار اور اقتدار کی خواہش، ہوس تو وہی ہے جو اسپین کے الفانسو 13 کے زمانے میں تھی یا برطانیہ کے ہنری ششم کے وقت میں یا ان دوسرے بادشاہوں کے دور میں جو ابھی ابھی پیدا ہوئے تھے اور بادشاہ بنا دیئے گئے تھے۔ ایک فرق ہاں پڑا ہے۔بادشاہ اس وقت چھوٹے اور بے اختیار ہوتے تھے، اتالیق بڑے اور بااختیار ۔اب معاملہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بوڑھے ہوتے ہیں اور اختیار جن کی مٹھی میں ہوتا ہے وہ جوان، یعنی حکمرانی کی وہ قسم ایجاد ہونے کے بعد جو ہمارے یہاں چل رہی ہے، وزیراعلیٰ کا بااختیار ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بے اختیارہوتا ہے۔ اصل حکمرانی کوئی اور کرتا ہے اور کسی دوسرے کو اختیارات سونپنے کیلئے وزیراعلیٰ ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے جس کی عمر بہت ہو۔
آگے بڑھنے سے پہلے ذرا شاہ پور ثانی کے قصّے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ فارس کے حکمران ہرمز ثانی کے مرنے کے بعد صاحبانِ اختیار نے اس کے بڑے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس سے چھوٹے کی آنکھیں نکال دیں اور تیسرے کو حوالہ زندان کر دیا۔ اب باقی بچا وہ جو ماں کے پیٹ میں تھا۔ یوں حکومت ملکہ اور بااثر لوگوں کے ہاتھ میں آگئی۔ سبق یہ حاصل ہوا کہ اگر آپ اختیارات اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں تو راہ کے سارے پتھر ہٹا دیں اور سید قائم علی شاہ کو وزیرِاعلیٰ بنا دیں۔اس سال عمر ان کی اسّی برس ہے ۔کارکردگی بھی سامنے ہے، دو بار اس عہدے پر رہے، کیا کیا؟ سب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں چار سو ارب روپے سندھ میں ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے گئے۔ ضرور کئے گئے ہوں گے،کہاں؟ کوئی بتا سکتا ہے؟ پورے صوبے میں ترقیاتی کام ہوا ہوگا، نظر تو نہیں آتا۔ کتنے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں، سرکاری سطح پر؟ وہی بات کہ کہاں؟ کتنی زمین سرکار کی خوردبرد ہوئی، کس نے کی، کوئی حساب کتاب؟ شاہ صاحب سے کیا پوچھنا، ان کے پاس کونسا اختیار تھا۔ جاننے والے کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں،ایک خاص سرور میں رہتے تھے۔ اختیارات بھائی بہن کو سونپ دیئے تھے یا انہوں نے ازخود حاصل کر لئے۔ نہیں، ان کے اپنے بھائی بہن نہیں،کسی اور کے۔ اور اب بھی کیونکہ اختیارات انہیں بھائی بہن کے پاس رہنا ہیں، قائم علی شاہ کو ایک بار پھر وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔ یہ کوئی افسانہ ہے نہ افواہ کہ بھائی صاحب کے پاس ہی سارے اختیارات تھے۔اگر وزیراعلیٰ ہاؤس میں آپ کے جاننے والے ہوں جن کے ساتھ آپ کا اعتماد کا رشتہ ہو تو وہ آپ کو اس راز میں شریک کر لیں گے،کرتے تھے۔ کبھی کسی معاملے میں اپنی بے بسی کا اظہار ”ہمارے بس میں نہیں“۔ کبھی شکایت”آپ تو جانتے ہی ہیں یہ کہاں سے ہوا ہے“۔ یوں نہیں ہے کہ سندھ کی حکمراں جماعت کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے،کئی ہیں یا تھے۔ ایک کو اسپیکرشپ کے گھاٹ اتار دیا، ایک کی آنکھیں وزارت کی چمک سے نکال لی گئیں، بعض کو دوسرے معاملات کے حوالے کیا۔ یوں قائم علی شاہ کے راستے کے سارے پتھر ہٹادیئے گئے۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ شاہ صاحب ایک بار پھر بے اختیار وزیراعلیٰ ہوں گے، افسوس اس بات کا ہے کہ پیپلز پارٹی نے حالیہ انتخابات کے نتائج سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ وہ سمٹ گئی ہے، بہت۔ وجہ اس کے کرتا دھرتاؤں کو پتہ ہونی چاہئے، خراب حکمرانی، اگر انہیں پتہ نہیں تو صد افسوس اور افسوس اس بات کا بھی کہ اِس صوبے کا کیا قصور ہے کہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو روایتی سوتیلی ماں بھی نہیں کرتی۔ آنکھیں کھولیں، اس صوبہ کا خیال کریں، یہ آپ کی آخری پناہ گاہ ہے۔
تازہ ترین