• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھیک 72 برس گزر گئے۔ بارہ مارچ سے بارہ مارچ تک دائرے کا سفر ہے۔ دھول جھونکنے کی حکایت دھند چھانے کی کہانی تک آن پہنچی۔ بارہ مارچ 1949کو ہم نے دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد منظور کی تھی۔ چوہتر سالہ قائدِ حزبِ اختلاف چٹوپادھیا دلیل کی دہائی دیتے رہ گئے، سرکاری بیانیے نے نعرے، طفل تسلی اور ملفوف دھونس کی مدد سے اقلیت کی اختلافی آواز کو کچل ڈالا۔ اس روز ہم نے شہریوں کے مساوی رتبے کے بارے میں بابائے قوم کے واضح فرمان سے منہ پھیر لیا تھا کہ عقیدے کو کاروبار ریاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔ قومی ریاست نام ہی شہریوں کے حق حکمرانی کا ہے۔ حق حکمرانی کیا ہے؟ شہری قومی وسائل کی تقسیم، محصولات کے استعمال اور قومی اہمیت کے بنیادی معاملات پر فیصلہ سازی کا مساوی حق رکھتے ہیں۔ ہم نے حق حاکمیت کو شہری کی بجائے ایک Non-Justiciable فکری تصور سے منسوب کر دیا تو یہ ناگزیر تھا کہ حاکمیت کا جواز طاقت کے بل پر تراشا جائے گا اور قانون کی سوفسطائی تشریح کی جائے گی۔

تین روز قبل ہم پر ایک اور بارہ مارچ گزر گیا۔ اس شام مظفر حسین شاہ کو لرزیدہ لب و لہجے میں ایوان بالا کے سربراہ کے لئے رائے شماری کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے دیکھا تو چشم تصور میں جسٹس محمد منیر کی شبیہ تیر گئی جب انہوں نے 10 مئی 1955کو اکاؤنٹس برانچ کے اہل کار غلام محمد کے ہاتھوں دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو درست قرار دیا تھا۔ انصاف قانون کے لفظ کی سنگی چٹان نہیں، یہ وہ شفاف پہاڑی چشمہ ہے جس کے گنگناتے پانی کی تہ تک ہر موج کی سرخوشی آنکھ ٹھیک ٹھیک دیکھ سکتی ہے اور دلوں میں انصاف کی ٹھنڈک محسوس کی جا سکتی ہے۔ ہم نے اپنی تاریخ میں ناانصافی کے منفعل خدوخال اس تواتر سے دیکھے ہیں کہ اب ہمیں انصاف کا چہرہ تک یاد نہیں رہا۔ میر صاحب یاد آ گئے، سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد / مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں۔

سینیٹ انتخابات میں جو کچھ ہوا، سامنے کی بات ہے۔ آئینی ترمیمی بل، صدارتی آرڈیننس اور صدارتی ریفرنس کی سہ طرفی یلغار بہت کچھ کہے دیتی تھی۔ اصولی طور پر ایوان بالا کے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں کی دریافت کے بعد انتخابی عمل روک کر اس بدترین سانحے کی تحقیق ہونا چاہئے تھی۔ ایوان بالا کی کمیٹی تو مار پیچھے پکار کا مضمون ہے۔ انتخاب کی رات ایک صاحب تعینات کئے گئے اور انتخاب کے ایک روز بعد کورونا کی آڑ میں تمام عملے کو رخصت کر دیا گیا۔ مسترد شدہ ووٹوں کا معاملہ وہاں پہنچ گیا ہے جہاں منصف کٹہرے میں ہیں، وکیل لغت ہائے مجازی کا بستہ بردار ہے اور دلیل سربزانو ہے۔ نومبر 2011میں ریاست ایک مفروضہ اسکرپٹ کی تلاش میں غیر ملکی موبائل کمپنیوں تک جا پہنچی تھی۔ اب ڈیرہ غازی خان سے ایک سینیٹر، ڈسکہ کے چند اہل کاروں اور حزبِ اختلاف کی ایک خاتون رہنما کا ٹیلی فون ریکارڈ معلوم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو کی موج بے اماں قومی سلامتی کی دہلیز تک آ پہنچی ہے۔ ایسی حلقہ در حلقہ فصیل کھنچی ہے کہ ’’نہ سنگ میل نہ منزل نہ مخلصی کی سبیل‘‘۔

موجودہ سیاسی کشمکش کا حقیقی میدان حکمران تحریک انصاف اور حزبِ اختلاف میں رسہ کشی نہیں، یہ پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان تو اسی طرح ’’فرائض تفویضہ‘‘ ادا کر رہے ہیں جیسے پاکستان قومی اتحاد کے نامزد وزیر ضیا آمریت کی عذر خواہی کیا کرتے تھے۔ لکھنے والے کا قلم اس تمثیل کے حقیقی کرداروں کا تعارف کرانے کی تاب نہیں رکھتا۔ ملک کو درپیش چند حقیقی مسائل کی نشاندہی کر لیتے ہیں۔ ہمارا معاشی بحران دراصل ہماری کمزور پیداواری بنیاد سے تعلق رکھتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور مقامی معاشی امکانات کو مسابقتی مواقع دے کر معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے سیاسی استحکام درکار ہے۔ ہم اپنی آبادی میں ہر برس ناروے کی کل آبادی کے برابر اضافہ کر رہے ہیں اور رحمت خداوندی کے اس سیلاب کی تعلیم سے مجرمانہ تغافل برتا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہماری انسانی ترقی کے موجودہ اشاریے جنوبی ایشیا میں نچلی ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ مستقبل میں بےروزگاری بڑھے گی اور ’’قیمے والے نان‘‘ پر ووٹ دینے والے ہجوم کا گرتا ہوا معیار زندگی سماجی انتشار کو بڑھاوا دے گا۔ ہم نے آدھی آبادی کو منفعت بخش پیداواری سرگرمی سے خارج کر رکھا ہے۔ 23کروڑ کی منڈی دس کروڑ ناخواندہ شہریوں اور گیارہ کروڑ ’’خواتین خانہ‘‘ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ گزشتہ صدی میں جرمنی اور جاپان جیسی تعلیم یافتہ صنعتی طاقتیں Lebensraum ڈاکٹرائن میں کامیاب نہیں ہو سکیں، ہمیں بھی اس خام خیالی سے باز رہنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک قابلِ عمل دستور موجود ہے اور وفاقی اکائیوں میں امید افزا سیاسی ارتباط پایا جاتا ہے۔ ہمیں مرکزیت پسند سوچ کی بجائے وفاقی تنوع میں سیاسی توانائی کی جستجو کرنی چاہئے۔ یہ زمینی حقائق شمار کرنا آسان ہے لیکن گوش اختیار کو بار سماعت نہیں۔

ہم اپنے قومی اسٹیج پر بیسویں صدی کے امریکی ڈرامہ نگار یوجین اونیل کا کھیل A Long Day’s Journey into Nightدیکھ رہے ہیں۔ ماں باپ اور دو بیٹوں کے چار ناکام کرداروں کا المیہ ہے جہاں گھرانے کا ہر فرد ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتا ہے، سب ایک دوسرے سے کبیدہ خاطر ہیں۔ اس کھیل کو پڑھتے ہوئے آپ باآسانی پاکستانی بحران کے کردار پہچان لیں گے کیونکہ آپ خطہ میانوالی کے پنجابی شاعر کے اس مصرعے کا پس منظر جانتے ہیں، پیر بخشا، ایہ گل ویران ہو گئی۔ آئیے یوجین اونیل کی تمثیل میں ماں کے دو مختصر مکالمے پڑھتے ہیں۔ I'm ... sick and tired of pretending this is a home ... You don't really want one!

(میں خود کو یہ دھوکہ دیتے دیتے تنگ آ چکی ہوں کہ یہ ہمارا گھر ہے۔۔۔ دراصل تم لوگ اسے گھر بنانا ہی نہیں چاہتے)The past is the present, isn't it? It's the future, too ۔ (جیسا ہمارا ماضی تھا، حال بھی ویسا ہی ہے اور مستقبل بھی ایسا ہی نظر آتا ہے)۔

تازہ ترین