• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بہت سیانے باوا نے مجھے کہا تھا۔ ’’بوجھ اتنا اٹھانا چاہئے جنتا کمر سہار سکے۔ زیادہ بوجھ اٹھانے سے ناتواں کمر ٹوٹ سکتی ہے، دہری ہو سکتی ہے اور تم کبڑے ہو سکتے ہو بلکہ تم کبڑے ہو چکے ہو‘‘۔سیانوں کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ مجھ سے ہضم نہیں ہوتیں۔ وہ زمانہ گزر گیا جب لوگ اپنا بوجھ آپ اٹھاتے تھے۔ ان کی ناتواں کمر دہری ہوکر ٹوٹ جاتی تھی۔ اور وہ کبڑے ہوجاتے تھے۔ سیانے باوا کو نہ جانے کس خبیث نے بتایا تھا کہ زیادہ وزن اٹھانے کی وجہ سے میں کبڑا ہوگیاتھا۔ حالانکہ ﷲ تعالیٰ کے لطف وکرم سے میرا تعلق کھاتے پیتے، با اثر اور روز اول سے اقتدار میں رہنے والے گھرانے سے ہے۔ ہم اپنا بوجھ آپ اٹھانے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ہمارا بوجھ دوسرے لوگ اٹھاتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے ہمارا بوجھ اٹھانے والوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے۔ ﷲ کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس۔ جس کسی کے پاس ﷲ کا دیا سب کچھ ہوتا ہے، وہ اپنا بوجھ آپ نہیں اٹھاتا۔ اس کا بوجھ اور لوگ اٹھاتے ہیں۔یہ درست ہے کہ میں کبڑا دکھائی دیتا ہوں مگر میں آپ پر واضح کردینا لازمی سمجھتا ہوں کہ کسی قسم کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے میں کبڑا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سب ﷲ تعالیٰ کا لطف وکرم ہے۔ کبڑا دکھائی دینا مجھے ورثے میں ملا ہے۔ میرے والد کبڑے تھے، بلکہ ابھی تک کبڑے ہیں۔ میرے دادا کبڑے تھے۔ میرے پڑ دادا کبڑے تھے۔میرے تڑ دادا کے تڑ دادا بھی سنا ہے کہ کبڑے تھے۔ وہ سب انگریز سرکار کے دور میں کبڑے ہوگئے تھے۔ باقی ماندہ ہماری فیملی کے بزرگان پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد کبڑے ہوگئے تھے۔ انہوں نے بھی کسی قسم کا بوجھ نہیں اٹھایا تھا۔ ان سب کابوجھ اٹھانے والے ان کے آگے پیچھے پھرتے رہتے تھے۔ میں آپ کو مخمصوں میں دھکیلنا نہیں چاہتا۔ نسل در نسل ہمارے کبڑے ہونے کی وجہ میں آپ کو بتادیتا ہوں۔ ہمارے خاندان، ہماری فیملی پر ﷲ تعالیٰ کا لطف وکرم ہے۔ جس پر ﷲ سائیں کا لطف وکرم ہوتا ہے، وہ حاکم وقت کا منظور نظر ہوتا ہے۔ اور حاکم وقت کا منظور نظر ہونے کے ناطے ، اس پر ملک وقوم کی اصلاح کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ انگریز حکمرانوں نے رعایا کو بغاوت سے باز رکھنے کا بوجھ ہمارے آبائواجداد پر ڈال دیا تھا۔ محب وطن ہونے کے ناطے حاکم وقت کی طرف سے ہم پر ڈالا ہوا بوجھ ہم اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اور یہ بوجھ ہم ہنسی خوشی قبول کرلیتے ہیں۔ حکومتوں کی طرف سے ہم پر ڈالا ہوا اعتبار کا بوجھ معمولی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ حکومتی استحکام کی ذمہ داریوں کا معتبر بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہم کبڑے ہوجاتے ہیں۔ حکام وقت کی نگاہوں میں لگا تار سرخرو رہنے کی وجہ سے میں لگاتار سینیٹر منتخب ہوتارہا ہوں۔

اس مرتبہ سینٹ میں جو ذمہ داریاں مجھے سونپی گئی ہیں ان ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری ہے پرائیویٹائزیشن کی۔ آپ جانتے ہونگے کہ جوادارے سرکاری ملازمین نہیں چلا سکتے وہ ادارے سرکار پرائیویٹ پارٹیوں کو نیلام کردیتی ہے اور نااہل ملازمین کو دوسرے اداروں میں ضم کردیا جاتا ہے۔ اس نیک کام کے لئے سرکار نے پرائیویٹائزیشن کمیشن قائم کردیا ہے۔ سینیٹ میں میرا کام ہے پرائیویٹائزیشن کمیشن پر نظر رکھنا۔ جو ادارے سرکاری ملازمین نہیں چلا سکتے، ان اداروں کی آپ عام پاکستانیوں کو نشاندہی کرنی ہے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن کاکام ہے فوراً حرکت میں آنا۔ ناکام ادارے کو بیچ دینا۔ چھان بین کرنے کے بعد کہ ادارہ واقعی خاص طور پر خسارے کا سبب بنتا جارہا تھا، پرائیویٹائزیشن کمیشن ناکارہ ادارے کو نیلام کردے گا۔ کٹر قسم کا جمہوری دور چل رہا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ کس کس ناکارہ اور خسارے کا سبب بننے والے ادارے سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ آپ مجھے، میرے سینیٹر ہونے کے ناطے مطلع کردیں۔ باقی کام مجھ پر چھوڑ دیں۔ اسی نوعیت کے قومی فرائض کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہم جواں ہوتے ہیں اور جوانی میں کبڑے ہو جاتے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہم اور ہماری فیملی جیسے ساڑھے تین سو کبڑے اسمبلی میں کیوں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ملک چلانا آپ کے کریانہ کی دکان کی طرح چلانا بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں ہے ۔ ہم اپنی بہو، بیٹیوں،داماد، بیٹوں، معہ اپنی بیگمات کے گھر میں کھانے کی ٹیبل پرکھانا کھاتے ہوئے قومی مسائل پر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ وسیع وعریض لان پرشام کی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم ملکی مسائل پر گفت وشنید کرتے ہیں۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم خواہ مخواہ کبڑے نہیں ہیں۔ ہم نے قومی مسائل کے حل تلاش کرنے کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ یہ میرا بلند بانگ دعویٰ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرہم ساڑھے تین سو کبڑے خاندان نہ ہوتے تو آپ کا ملک پاکستان کبھی نہیں چل سکتا تھا۔ ہماری جانفشانی کی وجہ سے پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔کبڑا سینیٹر ہونے کے ناطے میں آپ کو بتادوں کہ نیلام کرنے کے لئے، یعنی پرائیویٹائز کرنے کے لئے آپ ایسے سرکاری اداروں کی نشاندہی نہیں کر سکتے جو ادارے بظاہر ملکی معیشت پربوجھ ہیں، خسارے میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر ان اداروں کے افسران کے ہاں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے۔ افسران کی تین چار بیگمات ہوتی ہیں۔ الگ الگ کوٹھیوں میں رہتی ہیں۔ ان کے پاس نوکروں چاکروں کی ظفر موج ہوتی ہے۔ ایسے افسران کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں۔ ان اداروں میں ﷲ سائیں کے فضل و کرم سے نیک افسران لگے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے اداروں کی آپ نشاندہی نہیں کر سکتے۔ حاکم وقت ایسے اداروں کے لگاتار خسارے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حکومتوں کا انحصار ایسے اداروں کے افسران کی اعلیٰ کارکردگی پرہوتا ہے۔ مثلاً آپ پولیس، اینٹی کریشن، کسٹم،ایکسائیز اور ٹیکسیشن اور ریونیو جیسے اداروں کی نیلامی کے لئے نشاندہی نہیں کرسکتے۔ باقی تعلیمی اداروں جیسے اداروں کی نیلامی کے لئے آپ جب چاہیں مجھ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ایک محب وطن سینیٹر ہونے کے ناطے میں فوراً حرکت میں آجائوں گا۔ تب آپ محسوس کریں گے کہ ہم خواہ مخواہ کے کبڑے نہیں ہیں۔ ہم نے ملک وقوم کا بوجھ اٹھارکھا ہے۔

تازہ ترین