• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خالد محمود نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے ڈینگی کے خلاف دیوانہ وار کام کیا اب خسرے کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے خسرے سے اموات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے محکمہ صحت کو گزشتہ تین سال کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیاہے۔ انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں صحت اور تعلیم کے مسائل گھبیر سے گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے پاس نہ توصحت کے مسائل کے لئے جگہ اور نہ وقت ہے۔ بڑے بڑے قلم کار صرف اورصرف سیاست پر لکھتے ہیں کیونکہ سیاست پر لکھنے والا بہت بڑا صحافی سمجھاجاتا ہے۔ لیکن جو لوگ صحت اور تعلیم پر مدتوں سے کام کر رہے ہیں وہ کبھی بھی بڑے صحافی شمار نہیں کئے جاتے۔ سیاست پر ہر کوئی لکھ کر حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے قریب اور نامور ہو جاتا ہے۔ صحت پر لکھ کر کوئی کسی کے قریب نہیں اور نہ ہی نامور بن سکتا ہے۔ ہمارے ہا ں ہر سیاسی جماعت صحت اور تعلیم کی بات تو ضرور کرتی ہے مگر عملاً صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ اگر تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یکساں نظام تعلیم ہوگا تو اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر کوئی اور جماعت یہ کہتی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کامعیار ایچی سن کالج کے برابر ہوگا۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ کیا اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ کو آپ ایچی سن کالج بنا سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ البتہ ایچی سن کالج کو آپ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ ضرور بنا سکتے ہیں اور ہم نے ماضی کے کئی نامور اداروں کا حشر اسی طرح کیا ہے۔
پچھلے پانچ روز سے کراچی میں تھا۔ وہاں پر ہسپتالوں اور صحت کے مسائل دیکھ کردکھی ہو رہا تھا تو اس دوران لاہور کے اخبارات اور ٹی وی پر خسرہ ، سانحہ گجرات، لاہور میں ایک ماہ میں بیس ہزار افراد پرگیسٹرو کاحملہ، لاہور میں کینسر پھیلانے والی چائے کی پتی پکڑی گئی، پولیو اور ویکسین لگانے والی ٹیموں پر بدستور حملے جاری رہے۔ مظفرگڑھ میں زہریلا کھانا کھانے سے ایک خاندان کے آٹھ افراد مر گئے۔ یہ خبریں پڑھ کر اور دیکھ کر سوائے دل خون کے آنسو رونے کے کیا کرسکتاہے۔ بقول اکبر الہ آبادی:
جب میں کہتا ہوں کہ یااللہ میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ
پچھلے چند روز سے لاہور اورکراچی کی کئی عمارات میں آگ لگی ۔ کئی لوگ اس آگ کی نذرہوگئے۔ کتنی افسوسناک اور دردناک بات ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کے شہر میں ایک بھی جدید برن یونٹ نہیں اگر لاہور اور گجرات میں ایک بھی جدید برن یونٹ ہوتا تو منگووال کے کئی بچوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ چودھری صاحبان ویسے تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں گجرات ان کا آبائی شہر ہے آج تک وہ وہاں پر ایک بھی بین الاقوامی معیار کا ہسپتال اور برن یونٹ نہیں بنا سکے۔ کئی سال پہلے کھاریاں میں ایک اعلیٰ فوجی افسر کی اہلیہ کھانا پکاتے ہوئے کچن میں آگ لگنے سے بری طرح جھلس کئی تھی اس وقت تک فوج کے کسی ہسپتال میں انتہائی جدید برن یونٹ نہیں تھا چنانچہ اس واقعے کے فوراً بعد وہاں پر جدید ترین برن یونٹ قائم کیاگیا۔ برن یونٹ میں ایک خاص قسم کا بیڈ ہوتا ہے جس کی مالیت مختلف ذرائع کے مطابق 8سے 10 لاکھ کے درمیان ہوتی ہے جس میں صرف آگ سے جلنے والے لوگوں کو رکھاجاتا ہے تاکہ زخمی کو بیڈ سول Sores نہ ہو جائے اور انفیکشن نہ ہو جائے۔ لاہور میں کئی مرتبہ آگ لگی۔ شاہ عالمی کی تنگ و تاریک مارکیٹوں میں آگ لگی۔ ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگی۔ مگر کسی کو خیال نہ آیا۔ آخر بیوروکریسی جو اپنے آپ کو ہر فن مولا کہتی ہے اس نے کیوں نہیں اس پر کام کیا؟ عدالت کہتی ہے کہ غیرمعیاری سلنڈروں پر پابندی لگا دی ہے لیکن کوئی تو پوچھے کہ اس ملک میں جوبرسہا برس سے سرکاری عمارات میں ناقص وائرنگ کی ہوئی ہے اس کو کون چیک کرے گا؟ یقین کریں اگر میں ایک ایک مسئلے پر لکھوں دفتر کے دفتر بھرجائیں۔ آ ج کل تو سب سے بڑا مسئلہ خسرے کا ہے۔ خسرے سے اب تک 137 سے زائد بچے اپنی ماؤں کوہمیشہ کے لئے روتا چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ہر روز دو چاربچے خسرہ کی وجہ سے موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ محکمہ صحت اور سیکرٹری صحت جو کہ ظاہر ہے اس وقت اور پچھلے کافی عرصہ سے اپنے محکمے کے سربراہ ہیں انہوں نے کیاکیا؟ گزشتہ ایک ماہ میں سرکاری ہسپتالوں میں اب تک 16ہزار کے قریب بچے خسرہ کے آئے ہیں۔ پنجاب کے تین کروڑ 45لاکھ بچوں میں سے ابھی تک ایک کروڑ بچوں کو بھی ویکسین نہیں لگائی گئی۔ کہا گیا کہ خسرے میں مبتلا 85 فیصد بچوں کو بچا لیاجاتاہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 15 فیصد کومرنے دیاجائے۔ یہ ظالم وہ پالیسی ساز لوگ ہیں جو خسرے کے پھیلانے کے ذمہ دارہیں انہوں نے سوچا کہ جن والدین کا بچہ خسرہ کی وجہ سے مر رہا ہے وہ شاید ان کا اکلوتا ہی بچہ ہو۔ ویکسین غیرمعیاری تھی یا مطلوبہ ٹمپریچر پر محفوظ نہیں کی گئی تھی یاٹیمیں نہیں پہنچ پائیں اور صرف کاغذات میں ویکسین لگا دی گئی اس کی انکوائری ہونی چاہئے۔ آئندہ دو تین روز میں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھالیں گے اور پھر پہلے کی طرح متحرک اور سرگرم ہو جائیں گے لیکن انہیں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے اس بات کاحکم دینا چاہئے کہ آخر کون لوگ اس غفلت کے ذمہ دار تھے اور ہیں؟ جن کی غفلت کی وجہ سے بچے خسرہ سے مر رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک میاں شہبازشریف کو وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی خسرہ کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام شروع کردینا چاہئے۔ ہم میاں شہبازشریف اور وفاقی حکومت کی توجہ ایک اور جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ جناح ہسپتال لاہور میں جدید ترین برن سنٹر کا وعدہ پچھلے کئی سال سے کیاجارہاہے۔ برن سنٹر بن تو چکاہے مگر تاحال وہ کام نہیں کر رہا۔ اس وقت تمام سرکاری سکولز اور پرائیویٹ سکولز کے ننھے منے اور بڑے بچے جن ویگنوں میں گھروں سے سکولوں میں آتے جاتے ہیں وہ تمام کی تمام گیس سلنڈر پر ہیں۔ منگووال میں جو خوفناک اور اذیت ناک واقعہ پیش آیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سختی کے ساتھ ان ویگنوں کی گیس کٹ، سلنڈر کو چیک کرانے کا بندوبست کرے یا پھر ان ویگنوں اور رکشاؤں کو جوصرف سکولوں کے بچوں کو لانے لے جانے کا کام کرتے ہیں ان کو پٹرول یا ڈیزل پر کرنے کا حکم صادر کرے۔
ایک دوسرا افسوسناک واقعہ مظفرگڑھ میں زہریلا کھانا کھانے سے پیش آیا۔ جہاں پر ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد زہریلا آٹا کھانے سے مر گئے۔ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی ہے۔ آخر یہ ادا رہ اورمحکمہ خوراک دونوں کس مرض کی دوا ہیں، شہروں اور خصوصاً دیہات میں انتہائی ناقص آٹا، مرچ، مصالحے، گھی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء فروخت ہورہی ہیں۔ یہ ناقص اشیاء تو پورے ملک میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ان کے خلاف بھی دیوانہ وار کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اب کسی دیوانے کی ضرورت ہے اور یہ دیوانہ میاں شہباز شریف ہوسکتاہے اور اب صرف ایک صوبے میں نہیں ہر صوبے میں اور وفاق میں ایسے دیوانوں کی ضرورت ہے۔ آج عوام کی توقعات ن لیگ سے بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور جب توقعات بڑھ جائیں تو پھر کام بھی دیوانہ وار کرنا پڑتاہے۔ خدا کرے یہ ملک بجلی کے بحران سے باہر آ جائے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا کہ وہ بہتر ٹرین چلا اور بہتر حکومت کرسکتے ہیں ۔ ٹرین تو انہوں کیا چلانی ہے پچھلے پانچ برس کی حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ سوائے دکھوں اور درد کے کیا دیا؟
تجھ سے اب درد کا رشتہ بھی نہیں چاہئے ہے
جا مجھے تیری تمنا بھی نہیں چاہئے ہے
تازہ ترین