• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت اور وفاق سب کی ضرورت ہے۔ وفاق جمہوریت کے بغیر خود بخود وحدانی طرز حکومت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور جمہوریت وفاق کے بغیر ایک صوبے یا ایک ادارے کی آمریت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سب ادارے اور سیاسی جماعتیں جمہوریت اور وفاق کا احترام کریں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں یا ایسا قدم نہ اٹھائیں جن کی ان دونوں مقدس نظاموں پر ہلکی سی بھی زد پڑتی ہو۔ جن اداروں سے ان نظاموں کے احترام کی توقع کی جاتی ہے ان میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ بھی شامل ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ پچھلی حکومت نے اپنی مدت پوری کی، اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن اور مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کی گئیں مگر یہ بات بھی اب راز نہیں رہی کہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔ لوگ نہ صرف الیکشن کمیشن، آر اوز جن کا تعلق عدلیہ سے ہے اور خود جی ایچ کیو کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس نظام کو چلنا چاہئے۔ لوگ توقع کررہے ہیں کہ ہمارے سارے سیاسی رہنماؤں اور سارے حساس اداروں نے ماضی سے ضرور سبق سیکھا ہے اور اب کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں جمہوریت اور وفاق کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو۔ اخبارات میں پاکستان کے چیف جسٹس کے یہ ریمارکس شائع ہوئے ہیں کہ بجلی کی غلط تقسیم سے لوگ پریشان ہورہے ہیں اور یہ کہ کراچی سے خیبر تک سب کو مساوی بجلی ملنی چاہئے۔ چیف جسٹس صاحب کی اس رائے کا ہر کوئی احترام کرے گا کہ سارے پاکستان میں ہر ایک کی بجلی کی ضروریات پوری ہونی چاہئیں۔ سندھ کے بجلی اور گیس کے ماہرین کا موقف ہے کہ سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ایک سبب یہ ہے کہ سندھ اپنی گیس وافر مقدار میں پنجاب کو فراہم کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے سندھ میں نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ یوریا کھاد کی پیداوار میں بھی کافی کمی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پے گھوٹکی ضلع میں واقع قادر پور گیس فیلڈ کی اکثر گیس پنجاب کو فراہم کی جاتی ہے حالانکہ اس گیس فیلڈ سے تھوڑے ہی فاصلے پر یوریا کھاد کا کارخانہ ہے جسے 1.5 بلین ڈالر کے اخراجات سے قائم کیا گیا مگر اسے سال میں صرف40 دنوں کیلئے اس گیس فیلڈ سے گیس فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کارخانے میں برائے نام کھاد کی پیداوار ہوتی ہے اگر یہ کارخانہ گنجائش کے مطابق پیداوار دے تو پاکستان کھاد برآمد کرسکتا ہے جبکہ اس وقت ملک کھاد درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح کراچی میں کے ای ایس سی کے بجلی کے دو کارخانے ہیں ان کارخانوں میں بجلی گیس سے تیار کی جاتی ہے مگر ان دونوں کارخانوں کو ضرورت سے آدھی مقدار کی گیس فراہم کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان دونوں کارخانوں میں 400 میگاواٹ بجلی کے مقابلے میں تقریباً 200 میگاواٹ بجلی تیار ہوتی ہے۔ سندھ کے بجلی اور گیس ماہرین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہئے جبکہ آئینی ماہرین کے مطابق 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایک صوبہ اپنے یہاں نکلنے والی گیس سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ جانے والی گیس ہی دوسرے صوبے کو فراہم کرسکتا ہے۔ اس بات کو رد نہیں کیا جارہا ہے کہ نئے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی سندھ حکومت اب شاید 18 ویں آئینی ترمیم کی متعلقہ شق پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں اپنا کیس سی سی آئی میں زور دار انداز میں اٹھائے۔
جمہوری عمل ختم ہوتے ہی مرکز اور صوبوں میں اسمبلیوں کے وجود میں آنے اور نئی حکومتیں بننے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ سندھ کے عوام توقع کررہے تھے کہ پی پی کی قیادت گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی سے سبق حاصل کرکے کچھ ایسے نئے چہرے کابینہ میں لائے گی جن سے لوگ اس بار سندھ کے عوام کی بے لوث خدمت کی توقع کرسکیں مگر سندھ بھر میں مایوسی کی لہر ہے کیونکہ اکثر پرانے چہرے آگے لائے گئے ہیں جن کی کارکردگی کے بارے میں سندھ کے لوگوں کو بے پناہ شکایتیں ہیں۔ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ ایک بار پھر سید قائم علی شاہ ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ صاحب اس وقت پاکستان بھر میں سب سے سینئر پارلیمنٹیرین ہیں اور ان کو حکومت چلانے کا کافی تجربہ ہے مگر ان کے بارے میں سندھ کے لوگوں کو خاص طور پر دو شکایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ شاہ صاحب فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ شاہ صاحب کے بارے میں گزشتہ پانچ سالوں کے تجربے کی بنیاد پر یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس بار بھی سندھ کے وزرائے اعلیٰ خود شاہ صاحب کے علاوہ دو تین اور ہوں گے۔ اس سلسلے میں یہ بات ایک کھلا ہوا راز ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کراچی اور حیدرآباد میں اکثر معاملات کے حوالے سے فیصلے وزیراعلیٰ کے بجائے گورنر سندھ کرتے تھے اور اکثر اعلیٰ سرکاری حکام کے اجلاسوں کی صدارت بھی وہ کرتے تھے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت گورنر صوبے کا Titular Head ہوتا ہے اور متعلقہ صوبے میں صدر کے نمائندے کا کردار ادا کرتا ہے مگر گورنر عشرت العباد کو یہ اختیارات شاید ایم کیو ایم کی شرائط کی روشنی میں ملے ہوئے تھے۔ جب گورنر صاحب اپنے یہ اختیارات استعمال کرتے تھے تو سندھ کے لوگ اسے اپنی حق تلفی تصور کرتے تھے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گورنر عشرت العباد کو یہ اختیارات شاید ان سے بھی زیادہ اس وقت حاصل تھے جب جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سندھ کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم تھے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران سندھ کے دو اور بھی de factoوزرائے اعلیٰ تھے اور سید قائم علی شاہ نے آئین سے مبرا اس صورتحال کیخلاف کبھی بھی لب نہیں کھولے۔ یہ بھی ایک کھلا ہوا راز ہے کہ لیاری میں آپریشن سید قائم علی شاہ نے نہیں بلکہ کسی اور فرد کی ہدایات کے تحت شروع کیا گیا جو اس وقت کسی طور پر بھی حکومت سے وابستہ نہیں تھے۔
جہاں تک مرکز اور پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی کامیابی کا تعلق ہے تو ابتدائی اطلاعات کی روشنی میں یہ بات ظاہر ہورہی تھی کہ اس بار نواز شریف مرکز میں ایک حقیقی وفاقی نظام لانے کیلئے کوشاں ہیں۔مگر بعض اطلاعات کے مطابق ممکن ہے کہ سارے اہم عہدے پنجاب سے تعلق رکھنے والے (ن) لیگ کے رہنماؤں کو دیئے جائیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو پھر نقشہ کچھ اس طرح ہوگا کہ باقی تینوں صوبوں پر پنجاب حکومت راج کررہی ہو گی۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو شاید نقشہ انجینئرڈ انتخابات والے نقشے کا ایک تسلسل ہو گا جو بہرحال نہ وفاق کیلئے اور نہ شاید جمہوریت کے مفاد میں ہو۔
جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو وہاں اکثریت سے کامیاب ہونے والی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک دلچسپ بیان شائع ہوا ہے جس کے مطابق انہوں نے نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ان ڈرون حملہ کرنے والے امریکی جہازوں کو گرایا جائے مگر انہوں نے مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں حسب معمول کچھ بھی نہیں کہا۔ عمران خان کو مشورہ ہے کہ وہ ڈپلومیسی کے بارے میں کسی استاد کی خدمات حاصل کریں کیونکہ ڈپلومیسی کی زبان ذرا مختلف ہوتی ہے۔ خان صاحب کو اب انتخابی ہینگ اوور سے باہر آجانا چاہئے اور مختلف ایشوز پر اپنا موٴقف زمینی حقائق کی روشنی میں اتفاق رائے پیدا کرکے اختیار کرنا چاہئے ورنہ خود ان کی پارٹی کو تو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر کہیں اس کا خمیازہ ملک بھی ادا نہ کرے۔
جہاں تک سندھ اور بلوچستان کا تعلق ہے تو اس کے باوجود کہ دو سندھی اور ایک بلوچ پاکستان کے وزرائے اعظم بنے پاکستان میں اہم فیصلوں اور خاص طور پر خارجہ پالیسی کی تیاری میں آج بھی ان دو صوبوں کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ ان دو صوبوں کے لوگ خود کو پاکستان کے اندر محکوم تصور کرتے ہیں۔ میں اس سلسلے میں انتخابات سے قبل امریکی اسکالر چومسکی کے ایک انٹرویو کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
اطلاعات کے مطابق نواز شریف وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد تھر کا دورہ کریں گے تاکہ کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے پر غور کیا جائے یہ اچھی بات ہوگی مگر ان کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرانا ضروری ہے کہ کچھ لابیاں کوئلے سے ڈیزل بنانے یا تھر کا کوئلہ لے جا کر ملک کے مختلف حصوں میں بجلی گھر بنانا چاہتی ہیں۔ سندھ کے لوگ چاہتے ہیں کہ کوئلے پر بجلی گھر تھر میں ہی لگائے جائیں تاکہ اس پسماندہ علاقے کی ترقی ہو اور یہاں کے لوگوں کو روزگار ملے۔ کوئلہ آئین کے تحت صوبائی معاملہ ہے اور جنرل ضیاء کے دور میں کوئلے کو وفاقی سبجیکٹ بنانے کی کوششوں کی طرز پر کوئی قدم اٹھایا گیا تو سندھ کے لوگ اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
تازہ ترین