• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاد رہے یہ سینیٹ مقابلہ تھا، یہ ایوانِ بالا دنگل تھا، کیا سرکس لگی رہی، کیا نوٹنکی چلتی رہی، کیا مخولیا پروگرام تھا، فراڈ بمقابلہ فراڈ، دونمبری بمقابلہ دونمبری، دھوکہ بمقابلہ دھوکہ، جھوٹ بمقابلہ جھوٹ، چترچالاکی بمقابلہ چتر چالاکی، یاد رہے یہ سینیٹ مقابلہ تھا، یہ ایوانِ بالا دنگل تھا، کیا الجھاوے،کیا بہکاوے، اوپن ووٹنگ کر لو، خفیہ ووٹنگ رہنے دو، صدارتی آرڈیننس، صدارتی ریفرنس، آڈیو، وڈیو کہانیاں، ہارس ٹریڈنگ داستانیں، خفیہ کیمرے، پُراسرار مسترد ووٹ، بھانت بھانت کے بیانات، رنگ برنگی سیاستاں، جاگتے ضمیر، پھرتے جھرلو، یادرہے یہ سینیٹ مقابلہ تھا، یہ ایوانِ بالا دنگل تھا، گیلانی صاحب اقلیت میں ہونے کے باوجود جیت گئے مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، علی حیدر گیلانی آڈیوز، وڈیو آگئیں مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، مریم نواز نے کہا گیلانی صاحب کو جتوانے کیلئے ن لیگ کی ٹکٹیں چلیں مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، وزیراعظم، اٹارنی جنرل ہارس ٹریڈنگ، ہارس ٹریڈنگ کی دہائیاں دیتے رہے مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، سینیٹ ہال سے خفیہ کیمرے نکل آئے مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، سنجرانی صاحب گیلانی صاحب کے مسترد ووٹوں کی وجہ سے جیت گئے مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا، مرزا آفریدی نجانے کہاں سے اضافی ووٹ لے گئے مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا،الیکشن کمیشن کاکیا جوازرہ گیا، اسے تو خودہی مستعفی ہوجانا چاہئے۔

یاد رہے یہ سینیٹ مقابلہ تھا، یہ ایوانِ بالا دنگل تھا،میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو،اپوزیشن بولی، گیلانی صاحب کی جیت چوری ہوگئی، صدقے جاواں،آپ سے پوچھنا اگر چیئرمین سینیٹ انتخاب میں گیلانی صاحب کی جیت چوری ہوئی تو سینیٹر بنتے وقت گیلانی صاحب نے کس کی جیت چوری کی، کیا یہ نہیں ہوا کہ گیلانی صاحب حفیظ شیخ کی جیت چوری کرکے سینیٹر بنے مگر کیا کریں، ہر کوئی اپنا سچ سنا رہا، ہر کوئی اپنا سودا بیچ رہا، اپنی اپوزیشن کی منطق ملاحظہ ہو، جج ارشد ملک کی وڈیو آئی،فرانزک کے بناہی اصلی قرار پائی، علی حیدر گیلانی کی وڈیو آئی تو یہ جعلی، کوئی اصلی ماننے پر تیار ہی نہیں، یوسف رضا گیلانی 160ووٹوں میں سے 169ووٹ لیکر جیت جائیں مطلب اقلیت جیت جائے، اکثریت ہارجائے تو یہ جمہوریت کی فتح، سنجرانی صاحب اقلیت میں ہو کر جیت جائیں تو یہ جمہوریت پر حملہ، گیلانی، شیخ مقابلے میں 7ووٹ مسترد ہوں تو یہ معمول کی کارروائی، گیلانی، سنجرانی مقابلے میں 7ووٹ مسترد ہوجائیں تو یہ سازش، گیلانی صاحب کا انتخاب ہوتو پارلیمنٹ جانا عین جمہوری، وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینا ہوتو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ عین جمہوری،گیلانی صاحب کو سینیٹر بنوانا ہوتو قومی اسمبلی اجلاس آئینی، وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینا ہو تو اسمبلی اجلاس غیر آئینی ۔

یاد رہے یہ سینیٹ مقابلہ تھا، یہ ایوانِ بالا دنگل تھا،شرمندگی ہی شرمندگی، جیتنے والے، ہارنے والے، ہے کوئی جو کہے میں اصولوں پر، منطق پر، اخلاقیات پر، کیا یہی جمہوریت ہوتی ہے، کیا یہی اصل چہرہ ہے جمہوریت کا، کیا ایسے دنگلوں سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، ایسا کیوں ہے کہ ہم جیسے معاشروں میں جمہوریت بونوں کے نرغے میں، جس بونے کا جو دل چاہے کر گزرے، ہربونے کی اپنی جمہوریت، ہربونے کا اپنا سچ، یہ بات نہیں کہ یہ سب صرف ہمارے ہاں ہی ہو، ایسا نہیں ہے، یہ بھاؤ تاؤ، یہ خریدوفروخت، یہ جھوٹ، یہ دونمبری دنیا بھر میں ہوئی، ہورہی، ہر ملک، ہرمعاشرے میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے،بس اپنے ہاں جس دیدہ دلیری سے ہو، جس بھونڈے طریقے سے ہو، جس کھلے ڈھلے طریقے سے ہو، جس سستے طریقے سے ہو، ایسا کہیں نہ ہو، پھر باقی ملکوں، معاشروں میں کچھ غلط پکڑا جائے، جزاسزاہو، ہمارے ہاں کچھ بھی ہو جائے، کچھ بھی پکڑا جائے چند دن کا شور پھر لمبی چپ، چند دن کا رولا پھر سب کچھ ختم، جو کچھ اس بار سینیٹ انتخابات میں ہوا، باقی چھوڑیں، کسی ملک کے سینیٹ ہال سے 6جاسوسی کیمرے نکل آئیں اور صرف ایک کمیٹی بنا کر ملک وقوم مطمئن ہوجائے، ایسا کہیں سنا،دیکھ لیجئے گا، ہونا ہوانا کچھ بھی نہیں، کمیٹی بنی تو کیا، تحقیقات ہوں گی تو کیا ہوگا، قدم قدم پر چور دروازے، قدم قدم پر قانونی ریلیف، کچھ نہیں ہونا، کچھ نہیں ہو پائے گا۔

یاد رہے یہ سینیٹ مقابلہ تھا، یہ ایوانِ بالا دنگل تھا،ذرا سوچئے جو کروڑوں خرچ کرکے سینیٹر بنے گا کیا وہ اربوں نہیں کمائے گا، وہ سادھو تو نہیں کہ کروڑوں خرچ کرکے صرف ملک وقوم کی خدمت کرنے آئے، ذرا سوچئے، کیاایوانِ بالا کا یہی تقد س ہے، یہ سب کچھ دیکھ کرکون عزت کرے گا، ذرا سوچئے، ایسے انتخاب کا کیا فائدہ، ایسے منتخب شدہ کا کیا مصرف،ذرا سوچئے، جو کچھ ہمارے سامنے ہوچکا، جو کچھ ہم نے دیکھا، جو کچھ ہم نے سنا، یہ سب کچھ دیکھنے، سننے کے بعد ہمیں اپنی جمہوریت اور جمہوریت کو نچوڑ نچوڑ کر اپنی پیاسیں بجھاتے ازلی پیاسوں سے پیا رہوگا، ذرا سوچئے، ہر شے بکاؤ، ہر شے کی اک قیمت، ہر شے خریدی، بیچی جا سکے،سب سے بڑا روپیہ،ہم اپنی اگلی نسلوں کو کیا دیئے جارہے، چیئرمین سینیٹ انتخاب والے دن خصوصی ٹرانسمیشن وقفے کے دوران امریکہ، ناروے اور کراچی سے آئے موبائل میسجز، ایک دوست کا پیغام تھا،یہ ملک نواز،زرداری کے لائق، یہاں تبدیلی نہیں آسکتی، ایک صاحب نے لکھا، کیا ہماری ہر چیزفار سیل ہے، ایک صاحب کا کہنا تھا، بس یہی ہے عمران خان کی تبدیلی،ایک سینئر سفارتکار دوست کا میسج تھا، براہِ مہربانی پریشان نہ ہوں، یہ سینیٹ مقابلہ ہے، یہ ایوانِ بالا دنگل ہے، بڑے بڑے شہروں میں ایسا ہوتا رہتا ہے، دوستو، یہ تو پاکستان سے محبت کرنے والوں کے جذبات، ان کے احساسات، سب سچے، سیاست میں بڑی بے رحمی، بڑی بے دردی سے اصول، قاعدے نکالے جا چکے، یقین جانئے، سینیٹ انتخابات کے پچیس تیس دنوں میں جو کچھ جھوٹ، سچ سنا، بس رہنے دیں، کبھی سوچا نہ تھا کہ ایسا ممکن، بقول سینئر دوست جاوید چوہدری2مارچ کو 178ممبر قومی اسمبلی وزیراعظم کے ساتھ کھانا کھارہے تھے جبکہ حفیظ شیخ کوووٹ پڑے 164، 11مارچ کی رات کو 52سینیٹرز پی ڈی ایم کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلارہے تھے لیکن 12مارچ کی دوپہر سات سینیٹرز نے اپنے ووٹ ضائع کرکے گیلانی صاحب کو ہروادیا، جاوید چوہدری کا یہ کہنا نجانے کہاں تک ٹھیک ہے کہ مظفر علی شاہ کا پریزائڈنگ افسر بننا اور سات ارکان کا غلط جگہ پر مہر لگا ناسب طے تھا۔

تازہ ترین