• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم انسان اپنے آپ کو نہایت ذہین فطین سمجھتے ہیں، جانوروں میں سب سے افضل مقام ہمارا ہے ،ہمارے علاوہ کسی جاندار کے پاس فکری شعور نہیں ،پوری دنیا کو ہم نے اپنے تابع کر رکھا ہے ،ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر آنے والے زمانوں کی خبر دیتے ہیں ،کائنات کی ممکنہ تباہی سے ہم پوری طرح آگاہ ہیں، مختلف قسم کے عالمی خطرات کا ہمیں پورا ادراک ہے ،نسل انسانی کو کن کن خطرات کا سامنا ہے اس سے بھی ہم کماحقہ واقف ہیں، گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں قطب شمالی اور قطب جنوبی کے گلیشیرز کتنے عرصے میں پگھل کر زندگی کا خاتمہ کریں گے ہم نے سارا حساب لگا رکھا ہے ،اوزون کی تہہ جو کرہ ارض کو سورج کی الٹرا وائلٹ شعاؤں سے بچاتی ہے دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے ہمیں اس کی بھی فکر ہے اورایٹمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی تباہی سے تو بچہ بچہ واقف ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان پتھر کے زمانے میں واپس چلا جائے گا۔لیکن یہ تمام معلومات رکھنے کے باوجود ایک عام انسان اپنی صبح کا آغاز یہ سوچ کر نہیں کرتا کہ وہ آج کتنے مختلف طریقوں سے فوت ہو سکتا ہے بلکہ اس کے ذہن میں کاموں کی وہ لسٹ ہوتی ہے جو اس کی گھر والی نے صبح اس کی جیب میں رکھی ہوتی ہے ۔صبح کام پر نکلتے ہوئے ایک عام آدمی کو بے شمار قسم کے حقیقی خطرات لاحق ہوتے ہیں جن میں ٹریفک حادثے سے لے کر کسی وبائی مرض کی لپیٹ میں آنے تک اور دہشت گردی میں مرنے سے لے کر کسی اَن دیکھی گولی کا شکار ہونے تک تمام امکانات شامل ہیں ۔مگر عام آدمی (بلکہ خاص آدمی بھی) کا ذہن ان خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود ان سے منہ موڑے رکھتا ہے یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے کیونکہ اسے اس بات کی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ اگر وہ دفتر دیر سے پہنچا تو باس کی جھاڑ سننے پڑی گی یا اگر آج بجلی کا بل جمع نہ کروایا تو لوڈ شیڈنگ سے بچ جانے والی بجلی سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے ۔انسانی ذہن کے اس رویے کو جس میں انسان سنگین حقائق سے منہ موڑ کر شتر مرغ کی طرح گردن زمین میں دبا لیتا ہے ”انکار“ کہتے ہیں ۔
انسانی ذہن کا اپنا ایک خود کار دفاعی نظام ہے جس کے تحت ذہن ان تمام حقائق کی نفی کر دیتا ہے جو دماغ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ کا باعث بنتے ہیں ۔با الفاظ دیگر ہمارا دماغ ان تمام جان لیوا خطرات کو رد کر تے ہوئے صرف ان پریشانیوں پر فوکس کر تا ہے جن کاسامنا کر نے کی بظاہر ہم میں صلاحیت ہوتی ہے۔اگر کسی انسان کو ٹریفک حادثات کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ سال میں تقریباً 12لاکھ سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان میں سے آدھے پیدل چلنے والے، سائیکل یا موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں تو کیا گھر سے پیدل نکلنے والا شخص صبح کام پر نہیں جائے گا؟ بالکل جائے گا کیونکہ یہ انسانی ذہن کی خصوصیت ہے کہ انسان صرف اس خطرے کو ہی لفٹ کرواتاہے جسے وہ سنبھال سکے،دیگر خطرات کے ضمن میں ذہن خود بخود اندھاہو جاتا ہے ۔مثلاً کسی پیدل چلنے والے مزدور کا ذہن ٹریفک حادثے میں مرنے کے ممکنہ خطرے کو محسوس ہی نہیں کر پائے گاکیونکہ اسے پہلے دوپہر کی روٹی کا بندوبست کرنا ہے بصورت دیگر وہ غریب بھوک سے مر سکتا ہے !انسانی ذہن کا یہ قدرتی میکینزم اگر کارفرما نہ ہو تو ہم لوگ روزانہ شدید خوف کے عالم میں زندگی بسر کریں اور ہر وقت ہمارے دماغ میں یہی چلتا رہے کہ کب کوئی سیارہ ہماری ملکی وے سے گھومتا گھامتا آئے گا اور زمین سے ٹکرا کراسے ملیا میٹ کردے گا،ایسی دماغی حالت میں ہم انسان اپنے روز مرہ کے کا م کرنے کے قابل نہ ہوتے۔شاید اس قسم کی صورتحال کے لئے سو سال پہلے یہ لطیفہ گھڑا گیا تھا۔ایک آدمی نائی سے حجامت بنوا رہا تھا ،اچانک دکان میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اونچی آوازمیں خبر پڑھی کہ دس کروڑ سال بعد سورج ٹھنڈا ہو جائے گاجس کے نتیجے میں انسانی زندگی ختم ہو جائے گی۔یہ خبر سنتے ہی حجامت بنوانے والا شخص ہڑبڑا کر اٹھا، اس نے نائی کو پرے دھکیلا ،تولیہ سے منہ صاف کیا اور شدید پریشانی کے عالم میں بولا”کتنے سال بعد سورج ٹھنڈا ہو جائے گا؟“ جواب آیا ”دس کروڑ سال بعد۔“ یہ سنتے ہی اس شخص نے گہرا سانس لیا”شکر ہے ،میں سمجھا ،دس لاکھ سال بعد۔“
ہم پاکستانیوں کے ”انکار“ بھی نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں بلکہ کسی لطیفے سے کم نہیں۔پانی کے استعمال کو ہی لے لیں،ہم پانی یوں استعمال کرتے ہیں جیسے ہمارے پاس پانی کی لا متناہی سپلائی ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1992میں پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہو چکا تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس 1700m3 per capitaپانی تھا جو اب کم ہو کر سالانہ 1200m3 per capitaرہ گیا ہے ۔ہمارے انکار کی حالت یہ ہے کہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں میں سے شاید ہی کوئی یہ اعداد و شمار ذہن میں رکھتے ہوئے پانی کا استعمال کر تاہو،وجہ وہی کہ انسانی ذہن جس خطرے کا مقابلہ نہ کر سکتا ہو اس سے منہ ہی موڑ لیتا ہے۔پانی ضائع ہوتا ہے تو ہو ،جائے جہنم میں ،مجھے تو شاور میں نہانا ہے!اس ضمن میں دوسرا دلچسپ انکار یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ آبی دہشت گردی کر رہا ہے ۔یقینا بھارت کے جذبات پاکستان کے بارے میں محبت بھرے نہیں ہیں مگر پانی کا قصہ یہ ہے کہ بھارت تو بعد میں آبی دہشت گردی کرے گا سب سے پہلے تو ہم اپنے ساتھ آبی دہشت گردی کر رہے ہیں جو سال کا کئی ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر دیتے ہیں مگر انکار وہیں کا وہیں!گیس کا حال بھی مختلف نہیں ۔ہماری گیس کی یومیہ پیداوار 4ارب کیوبک فٹ ہے جبکہ ہم روزانہ 6ارب کیوبک فٹ استعمال کر رہے ہیں،اگر گیس استعمال کرنے کی ہماری شاہانہ رفتار یہی رہی اور ہم اسی کرّو فر کے ساتھ 20 لاکھ کی گاڑیوں میں سی این جی ڈلواتے رہے تو قدرتی گیس کے ذخائرآئندہ12 برس میں ختم ہو جائیں گے۔ مگر یہاں بھی ہم انسان اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود اس حقیقت سے انکار کئے بیٹھے ہیں اور سی این جی نہ ملنے پر حکومت کوصلواتیں سنانے سے نہیں چوکتے۔
ہماری قو م کا سب سے خوفناک انکار دہشت گردی کاہے۔جو دہشت گرد ہماری فوج،پولیس اور سیکورٹی اداروں کے جوانوں کی گردنیں کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتے ہیں اور پھر اس قبیح فعل کی ویڈیو اپ لوڈ کر کے فخریہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ انہوں نے کیا ہے ،ہم اس اعتراف کو سرے سے ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان یہ نہیں کرسکتا۔پھر یہ دہشت گرد ہماری مسجدوں ،امام بارگاہوں ،درباروں ،مارکیٹوں اور سکولوں کو بموں سے تباہ کرتے ہیں،سینکڑوں معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کے چیتھڑے اڑاتے ہیں اور پھر اس دہشت گردی کی ببانگ دہل ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو ہم تب بھی انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہیں یہ کوئی سازش ہے ۔حالانکہ اگر تمام دہشت گردی وہ لوگ نہیں کرتے جو اس کا اقرار کرتے ہیں تو پھر ہم ان سے مذاکرات کا اصرار کیوں کرتے ہیں ؟ہمارا قاتل ہمارے سامنے کھڑا ہو کر ہمارے پیاروں کو بے رحمی سے ذبح کرتا ہے اور ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دبا کر اس قاتل کا انکار کرتے ہیں اور ملبہ کسی اَن دیکھے دشمن پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں ،وجہ وہی کہ ہمارا ذہن چونکہ اس حقیقی خطرے سے نمٹنے کے قابل ہی نہیں لہٰذاہم انکار میں راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔بلاشبہ یہ انسانی ذہن کے انکار کی خوفناک ترین شکل ہے !
تازہ ترین