• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”اقتدار نہیں ”اقدار“مرکز ِ نگاہ ہے “ مسلم لیگ ن کے سربراہ محترم نواز شریف نے اتوار کی سہ پہر کوہِ مری کی پر فضا وادی میں بلوچ رہنماؤں کے جلو میں پریس کے سامنے اپنے تاریخی عزم کا اعادہ کیا۔ حضور اقدار ہی تو حالاتِ نزع میں تھے جبکہ اقدار کا تعین بھی ضروری ہے۔ ہماری عزت و توقیر بڑھائی، تمدن ، تہذیب ، حرمت کیا تھیں اور ہو کیا گئیں۔پچھلے 65 سال میں سیاستدانوں کی ہوسِ اقتدار نے اقدار کے بخیے ہی تو ادھیڑے ہیں۔ ماضی میں ”اقدار“ حکمرانوں کی ذات، ذاتی مفادات ، کاروبار ، کمیشن ، ٹیکس چوری ، منی لانڈرنگ ، ٹھیکے تک ہی وقف رہیں جو اقدار اسلاف اور بانیاں پاکستان نے وضع کیں، ترتیب دیں ہم ان سے دور ہو گئے۔ چلودیر آید درست آید۔وطن عزیزآج جس ہیجانی اور بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے نئی قیادت سے توقع ہی یہی ہے کہ سیاسی مفاد سے بالاتر ہو کر بکھرے وطن کویکجا کرے گی۔کرپشن سے پاک گڈ گورننس پہلی ضرورت جبکہ گڈ گورننس کے بغیر تکالیف او رمحرومیوں کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔ہماری نسل کی” چار دن کی عمر ِدراز‘ ‘آرزو اور انتظار کی نذر ہو چکی۔ 65 سال سے عوام الناس کو قائدین سے ٹوٹ کر بار بار محبت کرتے دیکھا جواباََقائدین نے عوام الناس کوباربار دھوکہ دیا۔
جہاں محترم نواز شریف کی ذات سے بہت توقعات ہیں وہاں کچھ تحفظات بھی ہیں۔ سب سے پہلے ”بقلم خود“ مثال بننا ہو گا۔ اقتدار کی جنگ سے برأت ایک اچھی خبر ہے۔بد نصیبی کہ پچھلے60 سالوں میں کوئی قائد بھی تدبر اور کردار کے اوسط درجے کے تقاضے پورے نہیں کر پایا۔بحیثیت مجموعی معمارانِ قوم کی بتائی گئی ترجیحات کے اوپر مملکت ِ خدادادکو استوارکرنے میں ناکامی رہی۔ کیا ایسی اقدار بھی پنپ پائیں گی ”جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی“۔
دانشور امریکی صدر ابراہم لنکن کی کہی ایک عالمگیری ضرب المثل وطن عزیز میں اپنی معنویت اور اعتبار کھو چکی ہے۔”آپ تھوڑے لوگوں کو بہت دیر تک توبیوقوف بنا سکتے ہیں،بہت سارے لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن بہت سارے لوگوں کو لمبے عرصہ تک بے وقوف نہیں بناسکتے ۔“ہمارے ہاں قائدین دہائیوں سے لوگوں کو بار بار بے وقوف بنا رہے ہیں اور عوام الناس دل جمعی سے بے وقوف بن رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں PPP اور کسی حد تک MQM کا سحردہائیوں کے بعدخدا خدا کرکے اب آکے ٹوٹا ہے۔
کریڈٹ قائدین کومہارت کادیں یا عوام کوبے وقوفی کا کہ عوام الناس کی قائدین پر وارفتگی اور دیوانگی دیدنی ہے۔ قائدین تو انگریزی مقولہ پر عمل پیراء ہیں(Fake sincerity-Rest is easy) اپنے ظاہری اخلاص کو راسخ کر دیں تاکہ خلقت ِ خدا بحر ِ اخلاص میں غوطہ زن رہے۔ سیاست فرقہ بن چکی اور قائدین کو ابدالوں کا درجہ حاصل ہے قوم نے 849 نمائندوں کو منتخب تو کر لیا لیکن کثیر تعداد 62/63 سے کوسوں دور اور صادق اور امین کی نچلی سطح سے بھی نیچے ۔اگلے مرحلے میں اخراجات کی تفصیلات جمع کرانا ہے۔ ہمارے نمائندوں نے جس غربت سے الیکشن لڑا ہے۔ معلومات کے بعد الیکشن کمیشن کو ان کے لیے چندہ جمع کرنا ہو گاکہ نمائندگان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی۔کوئی نمائندہ بھی چند بٹن کھول کر اپنے گریبان میں جھانکے گا توآئین اور قانون کو پامال پائے گا۔ صدحیف کہ قیادت بیک وقت آئین و قانون کی پامالی اور قومی خدمت سرانجام دینے پر مصر ہے۔
ن لیگ نے مجموعی طور پر ایک کروڑ 60 لاکھ جبکہ تحریک انصاف نے76 لاکھ ووٹ توقعات کے عین مطابق لیے البتہ پیپلزپارٹی 70 لاکھ کے لگ بھگ سندھ کی حد تک عزتِ سادات بچانے میں کامیاب ہو گئی ،MQM حصہ بقدر جثہ ۔اچھی خبرکہ عوام نے بھرپور شرکت کی۔
انتخابی مہم میں جوئے شیر لانے کے وعدے ہوئے ۔ امید رکھنی چاہئے کہ آنے والے دنوں میں بیروزگاری، بڑھتی آبادی ، بجٹ خسارہ ، اندرونی / بیرونی قرضے ، ترسیل زرِمبادلہ ،شرمناک اقتصادی شرح نمو، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، خط ِ غربت سے نیچے کا سفر، ناپیدتعلیم ، صحت مکاؤ، ترجیحی نظام تعلیم، بلدیاتی نظام کا عدم وجود ،شکستہ ریخ حکومتی ادارے ہمارا مقدر نہیں بن پائیں گے ۔انتخابات میں حصہ لینے والی تقریبا جماعتوں کو اقتدار مل گیا۔ن لیگ مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں مملکتِ خدادادکا انتظام و انصرام سنبھالنے کو ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بالترتیب سند ھ اور خیبر پختونخواہ میں تخت نشین ہو چکیں۔اللہ تعالی نے تمام کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ہنر اورفن کو آشکار کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔میدان بھی مل چکے اور گھوڑے بمع زین، رکاب، لگام تیار۔اب تک مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے جو تیر ترکش سے نکلے ہیں وہ برے نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ترویج و ترقی خالصتاََ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے چنانچہ ساری سیاسی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے نعمت ِ اقتدار سے نواز بھی دیا اور آزمائش میں بھی ڈال دیا۔
بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک کا وزیراعلیٰ بننا یقینا اچھا عمل ہے۔ بلوچستان کے معروضی حالات ہماری مجبوری اور نیا سیٹ اپ شکریہ ۔ ڈاکٹر مالک اقدار کی فتح ہیں یا نہیں اس کا پتہ بعد میں چلے گا البتہ جس طرح امریکی لابی اس حوالے سے یکسو اور یک جہت تھی وہ ہمارے لئے اچھنبے کی بات ضرورہے۔ پرویز خٹک کا خیبر پختوانخواہ میں وزیراعلیٰ بننا خوش آئند ہے ۔ تحریک ِ انصاف کی سیاسی کسمپرسی اور قیادت کے فقدان کے بعد کوئی چوائس تھی بھی نہیں ۔پرویز خٹک کی پہلی تقریر میں دانش مندی بھی تھی، مفاہمت اور مستقبل کا واضح نقشہ بھی تھا۔ پیپلز پارٹی جو اپنی مچان تک محدودہو کر رہ گئی ہے پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی نظر آرہی ہے۔ مظفر(ٹپی) کی موجودگی میں قائم علی شاہ فرشتہ ثابت ہوں گے جبکہ سندھ میں شاہ صاحب نے نتائج بھی دئیے ہیں۔ عزائم بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میدانِ سیاست چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ بھر پور طریقے سے واپس آنے کی متمنی ہے۔
محترم نواز شریف نے” اقدار“ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کا اعادہ کرکے پوری قوم کے دل جیت لیے۔ ”اقدار کی جنگ “کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں، اقدارکا تعین ضروری ہے۔ ہماری سب سے بڑی قدر” ہندوستان دشمنی “ ہی توہے۔مجھے بھارت کے ”دوستوں“ کی چیں بچیں سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستان کا بچہ، جوان، مرد، عورت بزرگ اس بات پر یکسو ہیں کہ ہندوستان ہمہ وقت ہمیں نقصان پہنچانے میں جتا ہے۔ ہمارے اسلاف اور بانیان نے اس قدر کو ہمیشہ اجاگر کیا اور ہمیں ہندو ذہنیت سے روشناس بھی کرایا قوموں کی بھی خصلتیں اور عادتیں نہیں بدلتیں۔ آج ہمارے قائدین اور دانشور جب خرد کی گھتیاں سلجھاتے یا بھارت سے دوستی کرتے نظر آتے ہیں تو اقدار کو ہی گھاؤ لگاتے ہیں۔
ایک اور اہم ”قدر“ ہماری فوج ہے۔ مضبوط فوج کے بغیر پہلی قدر مارے خوف کپکپاہٹ کا شکار ہی رہے گی چنانچہ مضبوط فوج ہماری اقدار کاناگریز حصہ ہے ۔نومنتخب اسمبلی کے پہلے دن ہی فوج کو زبانی کلامی زدو کوب کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ زدو کوب کرنے والے تقریباً سارے کے سارے معزز ممبران پارلیمان مارشل لا حکومتوں کا حصہ رہ رہ چکے ہیں ۔ وطن عزیز کی مشکل ترین جنگ کا موثر بندوبست کرنا یہ ہمارے جری جانثاروں کا ہی کا م تھاایسے میں تعریف کی گونج بھی پارلیمان پر لازم تھی ۔امریکہ بہادرکی خواہش اس خطے میں بھارت کو تھانیدار بنانا ، نئی دیوار چین بنا کر چین کا حصار مکمل کرنا اور پاک فوج کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے ۔نیوکلیئر اور مضبوط فوج طاقت کاتوازن اپنے حق میں کرنے میں کوشاں ہے۔ نئی حکومت بے شمار چیلنجز ۔ ہوش کے ناخن اور عوامی تائید ہی آگ کا دریا عبور کروائیں گی۔ حکمرانو کی جمع تفریق کی ذرا سی غلطی وطن عزیز کوژولیدہ حال بنا دے گی۔ بلوچستان ، فاٹا اور کراچی امریکہ اور ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ ہی رہیں گے۔یہ کسی آنے والے طوفان کا رونا نہیں ہے بلکہ وطنِ عزیزکے بیچ منجدھار میں ہچکولوں کی نشاندہی ہے۔
زرداری صاحب نے فلسفیانہ انداز میں ڈرون گرانے کے عمل کے مضمرات سے آگاہ فرمایا ۔زرداری صاحب یقین محکم،عمل پیہم اور کامل ایمان ہو تو مطلوبہ نتائج مل سکتے ہیں۔ہمیں ڈرائیں نہیں ڈرون صرف توپ سے نہیں گرائے جاتے ۔چین معاشی اور عسکری جگر ناتھ بن چکا مقابلے میں امریکہ کی افغانستان میں جان پر بنی ہے۔ اس جان کنی کے عالم میں بھی امریکہ کا ڈرون حملے جاری رکھناہماری نااہلی اور بے غیرتی کا اشتہار ہی تو ہیں۔ قوم کو وہ سلیبس نہ پڑھائیں جو استعمار نے صرف ہمارے پیارے قائدین اوربالشتیے دانشوروں کے لیے تیار کیا ہے۔ بے غیرت بریگیڈ تو ابھی سے بھارت کے اندر جائے اماں تلاش کر چکی ہے۔ ہمارے لیے اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی کافی ہے۔
وکی لیکس نے پاکستانی حمام میں سارے قائدین کو دکھا دیا ہے۔ پچھلے ساٹھ سال سے تسلسل کے ساتھ امریکی (NRO) پر ہماری حکومتیں تشکیل پا رہی ہیں لیکن یہ بھی دیکھیں کہ پچھلے 12 سال سے امریکہ نے ہمارا کیا ”بگاڑ“ لیا ہے۔حضور! ہماری حرمت دو قومی نظریہ ہی تو ہے19 کروڑ پاکستانی جانتے ہیں کہ دو قومی نظریہ میں دوسری قوم کونسی ہے؟ قائدین کرامان” اقدار“ کی جنگ لڑیں قوم کو شانہ بشانہ پائیں گے۔
تازہ ترین