• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں رائج لباس کی اقسام پر یہ آخری کالم ہے ۔ اس سیریز کے پہلے دو کالموں میں جو اقسام لباس رہ گئی تھیں ، آج ملاحظہ فرمائیے ۔
دھوتیانہ لباس: یہ سادہ ترین اور ہوا دار لباس ہمارے استاد محترم عطاء الحق قاسمی کا پسندیدہ ہے ۔ یہ جتنا سادہ ہے ، اتنا ہی کثیر المقاصد بھی ہے ۔ دیہات میں دھوتی پوش بابے گرمیوں کی راتوں میں کھلی جگہوں پر اسے اتار کر اور چارپائیوں پر لیٹ کر اوڑھ لیتے ہیں اور پر سکون نیند کے بعد سحر دم دوبارہ دھوتی باندھ لیتے ہیں ۔ زیادہ گرمی یا بارش میں دھوتی کو منی اسکرٹ بھی بنایا جا سکتا ہے اور کسی مشقت یا کھیل کے وقت با آسانی لنگوٹ کس کر نیکر میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ البتہ بقول استاد ، دھوتی کے لئے سیلنگ فین یا ٹیبل فین مضر اخلاق ثابت ہو سکتے ہیں ۔ نیز دھوتی سے بطور پنکھا ہوا لینے سے بھی استادوں نے منع فرمایا ہے ۔ تیز جھکڑ یا لڑائی جھگڑے کے دوران بھی دھوتی نقص امن کا باعث بن سکتی ہے ۔ آپ نے جاٹ کی دھوتی چرانے کے لئے پورا میلہ لگانے کا قصہ تو سنا ہوگا ۔آج کل یہاں بھی ایک دھوتی چرانے کے لئے ایساہی میلہ لگا ہوا ہے ۔ دھوتی پوش کی خواہش ہے کہ منتظمین میلہ کی دھوتیاں بھی ہوا میں اڑائی جائیں مگر میلہ لگانے والوں کی نظر فقط مظلوم دھوتی پوش کی دھوتی پر ہے ۔ انہیں یقین ہے کہ اس دفعہ وہ اس کی دھوتی چرانے میں ضرور کامیاب ہونگے ۔ تاہم صاحب دھوتی کو اس طرح کا کوئی خوف نہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ضمیر مطمئن ہوتو ڈرنے کی کوئی بات نہیں ، البتہ ساتھ ہی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی دھوتی کو مضبوطی سے پکڑ رکھاہے ۔
شلوار قمیض: یہ دنیا کا سب سے خوبصورت، جاذب نظر اور با وقار لباس ہے ۔ خصوصاً صنف نازک کے اس باذوق طبقے کے لئے ، جسے پہناوے کا سلیقہ ہے ۔ جب قدرت کسی کی تخلیق کے وقت شاعری کے قوانین ،ردیف قافیہ اور تقطیع و اوزان کا خاص خیال رکھتی ہے، نیز خود اس صندلیں بدن اور متوازن تخلیق کو بھی نشست و برخاست اور چال ڈھال میں شاعری کے عروض و قواعد اور بحور پر دسترس حاصل ہو تو پھر شلوار قمیض بنی ہی اس کے لئے ہے ۔ اس لباس میں ایسے سروقد گلبدن کی نشاط انگیز چال پر سارا ماحو ل دھمالیں ڈالتا ہے اور دل اس چال کی سحر انگیز دھن پردھڑکتے چلے جاتے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ ایسے میں اگر ان سجل پائوں کے نیچے طبلے رکھ دیئے جائیں تو تین تال بج اٹھیں۔ کیا کوئی ایسی کیف آفریں یاد آپ کی شب گزیدہ کے پہلو میں گدگدیاں کرتی ہے ؟
عاجزانہ لباس: یہ افسر شاہی اور سیاستدانوں کا پسندیدہ لباس ہے ۔ خسروئے وقت اگر شیروانی زیب تن کرے تو یہ بھی عاجزانہ طریقے سے وہی لباس اپنا لیتے ہیں ۔ اگر نیا حکمران ٹائی سوٹ پہنتا ہو تو یہ فوراً پرانے لباس پر تین حرف بھیجتے ہوئے اسی عاجزانہ انداز میں امپورٹڈ سوٹ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ تاریخ کے مطالعہ سے با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کل کلاں اگر کوئی دھوتی پوش تخت پر بیٹھ گیا تو یہ سارے بھی دھوتیاں پہن لیں گے اور اس سلسلے میں اپنی ناتجربہ کاری کی بدولت جلسوں اور ریلیوں میں مضر اخلاق حالات پیدا کریں گے ۔
ایمان افروز لباس:اگر اس عنوان سے آپ کے ذہن میں اداکارہ ایمان علی کے کسی خاص لباس کا خیال آیا ہے تو بلا تاخیر توبہ استغفار پڑھ لیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیس کے جزدان میں لپٹی بھاری بھرکم اور وسیع و عریض قبائیں ،جنہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے ، ایمان افروز لبادے کہلاتے ہیں ۔ ان میں سے چند صاحبانِ لبادہ ایسے بھی ہیں کہ جب وہ اپنے گرد لپٹا اخلاقیات کا یہ بند قبا ڈھیلا کرنا شروع کرتے ہیں تو شر پسند شور مچاتے ہیں کہ …بُکل دے وچ چور، نی میری بُکل دے وچ چور…
ایمان شکن لباس: ایمان افروز اور ایمان شکن لباسوں میں ایک خصوصیت مشترک ہے کہ حامل لباس کو دیکھتے ہی ذہن میں اس کی شخصیت کا مکمل پروفائل بن جاتا ہے ، جس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ۔ ایمان شکن لباس کو کئی لوگ لباس کے نام پر تہمت بھی سمجھتے ہیں ۔اگرچہ یہ رنگین ہوتا ہے مگر وہ اسے سنگین کہتے ہیں کیونکہ اسے دیکھ کر پہلی نظر میں لگتا ہے کہ جیسے کوئی بلائے ناگہانی نازل ہو گئی ہو ۔ تاہم سخت نفس کشی کا مرحلہ طے کر کے ہی اس لباس سے نظریں ہٹائی جا سکتی ہیں ۔ذوقِ خود نمائی میں ممنوعہ بور کے آتشیں اسلحہ کی سرِ عام خوفناک نمائش ہو یا ذوق چست لباسی میں کھلم کھلا جسمانی حسن کا خطرناک مظاہرہ ،دونوں سے نقص امن کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ نثر میں ایمان شکن لبادہ تنگ کا تفصیلی نقشہ سنسر کی زد میں آ سکتا ہے ، تاہم شاعرکی کیا بات ہے ، وہ تو ایمان شکن لباس سے بھی ایمان تازہ کر لیتا ہے ۔ عدمؔ کہتے ہیں :
دو جہاں کی کشادگی قربان
آپ کی تنگ آستینوں پر
خلعت شاہانہ: ہر خطے کے اپنے اپنے رسم و رواج اور حالات ہوتے ہیں ۔ کہیں اس لباس کو عوامی تائید رکھنے والا پہنتا ہے اور کہیں نصیبوں والا ۔دنیا میں اسے پہننے کے لئے معتبر اور غیر معتبر مگر پر امن طریقے رائج ہیں ، البتہ ہمارے ہاں اسے دو نمبر طریقوں سے اور چھین کر ہی پہنا جاتا ہے ۔ مشتاقان لیلائے اقتدار کی اس چھینا جھپٹی کے دوران اکثر خلعت شاہانہ تار تار ہو جاتی ہے اور نیا تخت نشین اسی پھٹی پرانی اور ادھوری خلعت کو بخوشی پہن لیتا ہے ۔ تاہم کبھی کبھی اس دنگا فساد میں یوں بھی ہاتھ ہو جاتا ہے کہ ’’ تھے پتلون کی تاک میں ،لنگوٹی بھی گئی ‘‘
اہتمامی لباس: اسے ماتمی لباس نہ پڑھا جائے ۔ یہ وہ لباس ہے کہ خدوخال کے ساتھ ساتھ جس کے لئے بہت زیادہ اہتمام کرنا پڑے ۔ سدا بادشاہی خدا کی ہے ، جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے اور ماہ و سال اور قلزم ہستی میں ابھرنے والے حباب تلاطم خیز حسن پر اپنے نقش چھوڑ جاتے ہیں تو حسن یہ صورت اختیار کرلیتا ہے کہ :
اوڑھ لے جو بھی لبادہ وہ
اب حسین رہ گیا ہے آدھا وہ
حسن ڈھلنے لگا ہے اب اس کا
اب تکلف کرے گا زیادہ وہ
ٹھگ لباس: جب کوئی ہمارا ہم وطن جعلی عربی شیخ بن کر ،چہرے پر داڑھی سجائے ، ہاتھ میں تسبیح پکڑے اور عربی لباس میں ملبوس بیرون ملک ملازمت کے امیدواروں کے فرضی اور فراڈ انٹرویو کرتا ہے اُسے ٹھگ لباس کہا جاتا ہے ۔
کچھ اسی قسم کا حلیہ دکانوں میں ملاوٹی ، دونمبر، کھوٹا اور جعلی مال بیچنے کے لئے بھی اپنایا جاتا ہے ۔ جعلی پیر ،عامل اور سیناسی باوے وغیرہ بھی اس لباس پر یقین رکھتے ہیں۔
فطری لباس :اس لباس کے لئے یہ بڑا شریفانہ سا لفظ ہے ورنہ حقیقت میں تو یہ سب سے زیادہ قابل اعتراض لباس ہے ۔ جب ہماری پولیس چور ،ڈاکوئوں ، دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کر چکتی ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے ، لہو گرم کرنے کی خاطر دیواریں پھلانگ کرفحاشی کے اڈوں پر چھاپے مارتی ہے اور وہاں سے بھنوروں اور تتلیوں کو فطری لباس میں گرفتار کر کے جیل بھیجتی ہے یا مک مکا کر کے چھوڑ دیتی ہے ۔ فطری لباس کے متعلق ’’بادشاہ ننگا ہے ‘‘ کا قصہ تو آپ کے علم میں ہو گا ۔ہماری شاندار تاریخ میں کبھی کسی بادشاہ نے خود کو برہنہ تسلیم کرکے اقتدار نہیں چھوڑا۔ اسے ہمیشہ یہ ایڈوانٹج رہا ہے کہ اسے برہنہ کرنے والے خود بھی اس کے شانہ بشانہ اسی حمام میں فطری لباس میں کھڑے ہوتے ہیں۔
تازہ ترین