• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارک لین

سینٹرل لندن

شہید محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ

السلام علیکم

معذرت کہ میں آپ کے آرام میں مخل ہو رہا ہوں۔ آپ دودھ اور شہد کی نہروں کے کنارے سستا رہی ہوں گی مگر بپتا ایسی آن پڑی کہ آپ سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ۔ میں لندن میں صاحبِ فراش ہوں۔ ایسے میں مریم اور مولانا فضل الرحمٰن نے آصف زرداری اور بلاول صاحب سے اجتماعی استعفوں پر زور ڈال دیا۔ بات تو سیاسی تھی مگر زرداری صاحب میری ذات کو بیچ میں لے آئے اور کہا کہ نواز شریف واپس آئیں اور ہم اکٹھے جیل چلتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

محترمہ!

آپ کو علم ہی ہے کہ اس وقت وطنِ عزیز میں جمہوریت نہیں بلکہ ایک سلیکٹڈ حکومت ہے اور ہم ساری جماعتیں مل کر سلیکٹڈ کو حکومت سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں طے ہوا تھا کہ لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے دیے جائیں گے۔ اب جبکہ اجتماعی استعفوں کا ذکر آیا ہے تو زرداری صاحب ہم سے ناراض ہو گئے ہیں اور الٹا ہم سب کو بےنقط سنا کر پی ڈی ایم کو ایک بےعمل اتحاد بنا دیا ہے۔ آپ کو خط لکھنے کا مقصد یہ ہے آپ روحانی طور پر اثر انداز ہو کر پی ڈی ایم کو بچائیں اور پیپلز پارٹی کو گائیڈ کریں کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ قدم ملا کر چلے۔

ہم سندھ حکومت کے بارے میں پیپلز پارٹی کے تحفظات سے آگاہ ہیں، اسی لئے ہم نے تجویز دی تھی کہ فی الحال ہم قومی اسمبلی سے استعفے دے دیتے ہیں اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی رکنیت برقرار رکھتے ہیں، ہمیں پیپلز پارٹی کی طرف سے بتایا گیاکہ اگر انہوں نے قومی یا صوبائی اسمبلی سے استعفے دیے تو انہیں سندھ میں جام صادق یا ارباب رحیم جیسی پیپلز پارٹی مخالف حکومت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یوں وہ بیٹھے بٹھائے مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر اجتماعی استعفے اور لانگ مارچ ایک ساتھ ہو جائیں تو تحریک انصاف کی حکومت برقرار ہی نہیں رہ سکے گی، اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ وہ فوراً الیکشن کروائے اور یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔

شہید بی بی صاحبہ!

آپ کو تو غلماں نےخبر دے دی ہو گی کہ سینیٹ میں ہم نے پورا زور لگا کر یوسف رضا گیلانی کے حق میں ووٹ ڈلوائے ہمارے کچھ لوگ اِدھر اُدھر ہونا چاہتے تھے مگر میں نے خود لندن سے فون کر کے انہیں پابند کیا کہ وہ ووٹ یوسف رضا گیلانی کو دیں یہ الگ بات ہے کہ جس تکنیک سے ان کی مہر لگوائی گئی وہ آپ کے پرانے اور ازلی سیاسی مخالف سید مظفر حسین شاہ نے مسترد کر دی۔

ظاہر ہے کہ ہمارا معاشرہ اب بھی اسی طرح سیاسی تقسیم کا شکار ہے، انصاف اور سچ کا بول بالا ابھی تک نہیں ہو سکا۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمارے اتحاد کے مظاہرے کے بعد سے توقع تھی کہ پی ڈی ایم اتحاداور مضبوط ہو گی مگر ہوا اس کے بالکل الٹ۔

میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنی پارٹی کو ہدایت کردیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ نہ بنائیں اعظم نذیر تارڑ ہمارا نومنتخب سینیٹر ہے، نوجوان قانون دان ہے، صاف ستھرا اور عقل و شعور والا آدمی ہے، اس کےبارے میں کہنا کہ وہ بےنظیر قتل کے دو ملزموں کا وکیل رہا ہے لغو سی بات ہے، وکیل ہر طرف کے لوگوں کے مقدمات لے لیتے ہیں وہ جمہوری افق کا ابھرتا ستارہ ہے۔ آپ اس کی مدد کریں تاکہ نوجوان خون بھی سیاست میں آ کر اپنا کردار ادا کر سکے۔ اعظم نذیر اور پیپلز پارٹی کے احسن بھون نے مل کر بار کونسلز میں جمہوری لڑائی لڑی ہے ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

محترمہ!

ہم اور پیپلز پارٹی متفق ہیں کہ خان کو جلد سے جلد رخصت ہونا چاہئے لیکن اب جب فیصلہ کن مرحلہ آیا ہے جب ہم نے اجتماعی استعفے دینے تھے اور لانگ مارچ کرنا تھا، پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی ہے آپ تو سیاسی جماعتوں سے جو وعدہ کرتی تھیں وہ نبھاتی تھیں ہم نے میثاقِ جمہوریت کا بےمثال معاہدہ کیا افسوس کہ اس پر ابھی تک مکمل عمل نہیں ہو سکا لیکن ہماری پارٹیوں کو کم از کم اپنے وعدوں کا پاس تو کرنا چاہئے۔

شکوہ یہ بھی ہے کہ زرداری صاحب کو علم ہے کہ میں قید کے دوران دو تین بار مرتے مرتے بچا ہوں، ایسے میں مجھ سے یہ مطالبہ کہ میں آ کر تحریک چلائوں انہیں زیب نہیں دیتا۔ ہمیں ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت کا خیال کرنا چاہئے۔ سیاست تو ہوتی رہتی ہے لیکن تحریک انصاف والے تو میری جان کے درپے تھے، بڑی تکلیف میں رہا یہاں لندن آ کر نسبتاً بہتر اورپُر سکون ہوں۔ زرداری صاحب اور بلاول کو سمجھائیں کہ ہم نے ذاتی الزامات لگاناایک عرصہ سے بند کر دیے ہیں اس لئے یہ سلسلہ دوبارہ سے نہ کھولا جائے۔

محترمہ!

آپ زرداری صاحب کو یہ بھی سمجھایئے گا کہ وہ بار بار مجھے پنجاب میں تبدیلی اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی بات کرتے ہیں، میں ہر بار بات بدل دیتا ہوں۔ آپ انہیں بتا ئیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کے لئے چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانا خطرناک ہو گا کیونکہ وہ دونوں پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو قابو کر لیں گے اور پھر چودھری پرویز الٰہی سے پنجاب واپس لینا بزدار کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہو گا۔ میں نے آج ہی مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن دونوں کو فون کر کے کشیدگی کم کرنے کو کہا ہے، آپ بھی اس سلسلے میں زرداری صاحب اور بلاول کو پیغام بھیجیں کہ وہ پی ڈی ایم کی اگلی میٹنگ میں اتحاد کو چلانے، مضبوط کرنے اور بہتر بنانے کی تجاویز کے ساتھ آئیں۔

اگر پی ڈی ایم کو نقصان پہنچا تو پوری جمہوری جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ مجھے علم ہے کہ عالمِ بالا میں بھی جمہوری طبقات کو یہ فکر ضرور لاحق ہو گی کہ اگر پی ڈی ایم نہیں چلتی تو عمران حکومت کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ ہر چیز کا حل مذاکرات میں پوشیدہ ہے، زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن کی ون ٹو ون ملاقات اس حوالے سے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

شہید بی بی !

اگر آپ اجازت دیں تو مشکل مواقع پر آپ کو خط لکھ کر آپ سے مدد اور رہنمائی حاصل کر لیا کروں؟ امید ہے آپ کی کلثوم سے تفصیلی ملاقات ہو گئی ہو گی، وہ اور مریم تو آپ کی بہت فین ہیں۔ ابا جی میاں شریف نے آپ کو باقر خانیاں اور امرتسری میٹھی بالائی والی لسی بھجوائی تھی امید ہے آپ کو پسند آئی ہو گی۔ میری طرف سے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو سلام و آداب والسلام

محمد نواز شریف

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین