• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ڈی ایم نے کسی بڑے عوامی مفادات کے حامل اور حقیقت پسندانہ ایجنڈے کے بغیر، محتاط اندازے کے مطابق غیرمعمولی میڈیا کوریج حاصل کی۔ واضح رہے کہ ذرائع ابلاغ کا وقت اور جگہ بہت قیمتی ہوتی ہے۔ میڈیا، خواہ براڈ کاسٹنگ (ٹی وی ریڈیو) ہو یا اخبارات وجرائد اسے وسیع تر عوامی دلچسپی اور خود اپنے اعتبار (کریڈیبلٹی)کو محفوظ رکھنے اور بڑھانے کے لئے اپوزیشن کو بہت اہمیت دینا پڑتی ہے اور حکومت سے اپنے تعلقات بہتر دیکھنا جو نیم آزاد و خود مختار ریاستوں میں بھی قائم رکھنا محال ہوتا ہے۔ عوام کا بڑا حصہ اپوزیشن کے ساتھ ذہناً وابستہ اور اس کا ووٹ بینک ہوتا ہے۔ سو اپوزیشن تنہا پارٹی کی شکل میں ہو یا یہ پارٹیوں کا اتحاد ہو اس کی اہمیت اور کردار کو پورے طور پر تسلیم کرنے میں میڈیا بڑا چوکس رہتا ہے، حکومت گڈ گورننس کی بھی حامل ہو تو وہ اپوزیشن کو ہرگز نہیں بھولتی، اس کا پیشہ ورانہ مہارت سے قائم کیا گیا میڈیا کوریج کا توازن، معمولی اتار چڑھائو (فلیکچویشن) میں اکثر جھکائو اپوزیشن ہی کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومت کو حاصل اکثریت، اپوزیشن کے حامیوں کےمقابل میڈیا کے مجموعی رویے پر نہ تو ان کے برابر پرجوش ہوتی ہے نہ اس کی مانیٹرنگ ان کی طرح کر رہی ہوتی ہے۔

میڈ یا سائنس کے یہ وہ حقائق ہیں جس نے غیر منطقی اور ناقابل حصول ’’حکومت اکھاڑ‘‘ ایجنڈے پر بھی عمران حکومت مخالف ایجنڈے کو بھی میڈیا پر موجود جملہ حکومتی دبائو پی ڈی ایم اور اس کے غیر منتخب قائد مولانا فضل الرحمٰن، ن لیگ کی نومولود (اور غیر منتخب بھی) رہنما مریم نواز اور پی پی پی کی بھی نوخیز قیادت بلاول بھٹو زرداری کو کوریج دینے حتیٰ کہ خطرہ مول لے کر ملکی عدلیہ سے مفرور قرار دیئے گئے ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی فاصلاتی آتشی تقریروں کو کوریج دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پی ڈی ایم کے قیام کے ابتدا سے ہی اس کی سب سے بڑی پارٹی کی خاندانی قیادت کے باہمی اختلاف سے لے کر تمام بڑی چھوٹی پارٹیوں کے کچھ نہ کچھ اختلاف کی موجودگی اور ان کی کوریج میں بھی بار ہا اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کے باوجود یہ میڈیا ہی تھا کہ جس نے پی ڈی ایم کو حوصلہ بھی دیئے رکھا، اسے متحد رہنے اور ’’کچھ حاصل کرسکتے ہیں تو کرلیں‘‘کے لئے بھی بھرپور ابلاغی معاونت کی۔

اس سارے پس منظر میں پی ڈی ایم کی اصل حقیقت چار روز قبل کھل کر پوری قوم کے سامنے آگئی کہ منطقی طور پر اس مصنوعی اتحاد کی اصل حقیقت کیا ہے یہ کہ وہ موجودہ ملکی چیلنجنگ صورت حال میں قوم کو تو لانگ مارچ اور حکومت اکھاڑنے کے لئے ساتھ تو کیا ملا سکتی، خود ہی متحد نہیں۔ پی پی جس تاریخی اور کتنے ہی دوسرے امتیازات کے ساتھ سندھ جیسے بڑے صوبے کے اقتدار میں ہے، وہ یہ بھی بخوبی جانتی ہے کہ نہ تو دھرنوں اور مارچ سے منتخب مانی جانے والی حکومتیں ختم ہو سکتی ہیں نہ انہیں سلیکٹڈ جیسے بے اثر پروپیگنڈے سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ پھر مولانا فضل الرحمٰن جو پی ڈی ایم کے اصل بانی ہیں کی اپنی جماعت ’’سلیکٹڈ حکومتی نظام‘‘ میں ضمنی انتخابات، سینٹ الیکشن اور پارلیمانی عہدے سنبھالنے میں سرگرمی سے حصہ بھی لے رہی ہے، ایسے میں پی پی جو صوبائی حکمران بھی کیسے ’’استعفیٰ سیاست‘‘ کا پھندہ قبول کرسکتی ہے۔ رہیں بلاول کی مولانا صاحب اور باجی مریم کو ساتھ چلنے، حتیٰ کہ استعفے جمع کرانے کی مسلسل یقین دہانیاں، اسے اسٹیٹس کو کی سیاست کا خصوصی رنگ سمجھ لیں یا زر داری کی سیاسی خودکشی پر آمادگی سے عین وقت پر بھی محفل میں ٹکے سے جواب کو روتی دھوتی (مائنس پی پی) پی ڈی ایم کے زاویہ نگاہ کے مطابق پی پی کی مکاری غیر منطقی متحدہ اپوزیشن کی حقیقت وہی تھی، جسے حکومت اور اس کے حامی اور معاونین ٹی وی ٹاکس اور اپنے تجزیوں میں عوام کو نہ سمجھا سکے، لیکن آصف زرداری نے چند جملوں میں میاں نواز شریف ، مولانا صاحب اور مریم نواز کے سیٹ کئے ٹارگٹس کو بھسم کرکے سمجھا دیا۔ میاں نواز شریف کو واپس آ کر ساتھ شریک ہونے اور جیل جانے کی چونکا دینے والی شرط، زرداری کا ٹرمپ کا وہ پتہ تھا جو بقول شیخ رشید انہوں نے سینے کے ساتھ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ پی پی تو اپوزیشن کی علمبردار بھی بنی رہی اور ریت میں مچھلی کی تلاش کے سفرپر نکلنے سے عین پہلےیکدم کنار کشی کرکے ایسا جواب دیا کہ پوری پی ڈی ایم کی قیادت چند لمحوں میں کلٹی کھا گئی، (حقیقت یہ ہے انہوں نے پی ڈی ایم کو بھی بچایا) ایک شام میں اس کا بنا ٹمپو اور دوبارہ سے چڑھتا گراف زمین سے آن لگا۔ تاہم مولانا کی ذہانت بھی اس عالم مایوسی میں کم نہیں ٹکا سا جواب سن کر بھی، انہوں نے بڑے حوصلے سے کہا کہ آپ معاملہ اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں لے جائیں۔ یوسف رضا گیلانی میرے پنجاب یونیورسٹی کے ہم جماعت ہیں، میں ان کی سیاسی روا داری سے بخوبی واقف جو یونیورسٹی پالیٹکس سے شروع ہو کر سکہ بند ہوگئی ہے، انہوں نے بھی مولانا اور سب کو تسلی دینے کے لئے کہا جی بالکل ہم ایسا ہی کریں گے۔ اب مولانا کے پاس پی ڈی ایم کو فی الحال سنبھالا دینے کے لئے کوئی بیساکھی نہیں کہ وہ زر داری کے کورے جواب کے بعد بھی متاثرین اور عوام میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان پی پی کا جواب آنے کے بعد کریں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین