• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الحمدللہ۔ میں بھی ان خوش قسمت بوڑھوں میں شامل ہو گیا ہوں جن کے جسم میں اپنے عظیم دوست چین کی ویکسین ’سائنو فارم‘ داخل ہو چکی ہے۔ بیگم کو پہلے تاریخ مل گئی۔ آغا خان اسپتال گئے۔ پہلا دن تھا۔ لوگ توقع سے زیادہ ہو گئے۔ انتظامات کم پڑ گئے۔ اگلے ایک روز کے لئے عمل معطل کیا گیا۔ اسی اثنا میں آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے خاص طور پر فون کرکے یہ مژدہ سنایا کہ 60سال سے اوپر کے ارکان کے لئے آرٹس کونسل میں انتظام کیا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ کے محکمۂ صحت کے تعاون سے۔ احمد شاہ بلڈنگ میں ہال 1میں ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں تمام مراحل طے ہورہے تھے۔ ڈاکٹر صاحبان بہت مہربان، میرے لئے میڈم رفیعہ انور نے یہ خدمت انجام دی۔ میں اس وقت سوچ رہا تھا جب اس عالمگیر وبا نے پوری دنیا میں سناٹا ڈال دیا تھا، کروڑوں سر جھکائے خوف زدہ سوچ رہے تھے، پتہ نہیں ان کی زندگی میں ویکسین آجائے گی یا نہیں؟ دیکھیں اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے۔ اقبال نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا تھا: تو شب آفریدی چراغ آفریدم، اے خدائے بزرگ و برتر تو نے رات تخلیق کی، میں نے چراغ تخلیق کیا۔ قادر مطلق نے انسان کو یہ توفیق دی۔ ایک سال میں ہی اس درد کا درماں تلاش کر لیا گیا۔ دنیا بھر میں پہلے طبّی عملے کو ویکسین سے نوازا گیا۔ اب 60سال سے زیادہ عمر کے لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ آرٹس کونسل میں بہت سی ہم عصر خواتین کو دیکھا جو کبھی یہ نہیں مانتی تھیں کہ وہ سٹھیا گئی ہیں۔ اب اس ویکسین کے لئے وہ خود آگے بڑھ کر کہہ رہی تھیں کہ وہ 60سال کی ہو چکی ہیں۔ ہم مسلمان ایک بار پھر کافروں کے مرہونِ منت ہیں۔ مجال ہے کہ کسی مسلم ملک نے ویکسین بنانے کا تردد بھی کیا ہو۔

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں کے ساتھ بیٹھنے کا دن۔ ان کے سوالات سننے اور جواب دینے کے لمحات۔ دو روز بعد 23مارچ کا تاریخی دن آرہا ہے۔ قرار داد لاہور پھر قرار داد پاکستان۔ میں اور قرار داد پاکستان ہم عمر ہیں بلکہ میں اپنی لکھی ہوئی تاریخِ پیدائش 5فروری 1940کے مطابق قرار داد پاکستان سے 47روز بڑا ہوں۔ 1940میں فروری 29دن کا تھا۔ 23مارچ یومِ پاکستان ہے۔ ایک تو اس قرار داد کی منظوری کے حوالے سے، جو شیر بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔ بچوں کو بتائیں کہ تحریک پاکستان سب سے زیادہ مشرقی بنگال یا مسلم بنگال میں چلی تھی۔ پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ حصّہ اسی مشرقی پاکستان کا تھا، جو ہماری غلط پالیسیوں، نا انصافیوں کی وجہ سے الگ ہوگیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس سے 3دن بعد 26مارچ کو مشرقی پاکستان والے اپنی آزادی کا دن مناتے ہیں۔ اسی روز پی ڈی ایم نے لانگ مارچ رکھا تھا۔ جو اب پیپلز پارٹی کے تحفظات کے باعث ملتوی کردیا گیا ہے۔ 1971میں 3مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے سبب ملتوی کیا گیا تھا۔ اس التوا کے نتیجے میں متحدہ پاکستان سمیت سب کچھ ملتوی ہوگیا ۔ 23مارچ 1971کو پورے ڈھاکا میں بنگلہ دیش کے پرچم لہرادیے گئے تھے۔ 25مارچ کو صدر جنرل یحییٰ خان نے فوجی کارروائی کا حکم دے دیا تھا۔ ہماری نئی نسل کو علم ہونا چاہئے لیکن اب تو ہمارے بہت سے لیڈروں کو بھی اس کا علم نہیں ہے۔

ان تمام مایوسیوں اداسیوں کے باوجود مجھے 23مارچ سے اس لیے دلچسپی ہے کہ اگلے سال پاکستان کے قیام کو 75سال ہوجائیں گے۔ اگر چہ یہ 1947میں جنم لینے والا پاکستان نہیں ہے، جو ایک طرف چٹا گانگ سے رنگ پور، کھلنا سے سلہٹ تک پھیلا ہوا تھا۔ ادھر مغربی پاکستان کیماڑی سے خنجراب تک مند(بلوچستان) سے چترال(کے پی کے) تک آباد تھا۔ تمام سانحوں المیوں کے باوجود اس وقت جو بھی پاکستان ہے، اسے اگست 2022میں 75سال ہوجائیں گے۔ اپنی بقا کے لیے جدو جہد کرتی قومیں اپنے ایک اک لمحے کو محفوظ رکھتی ہیں۔میں اگست 2020سے یہ التجا کررہا ہوں کہ ہم 2022میں ڈائمنڈ جوبلی منانے کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کریں۔23مارچ 1940 کوقرار داد پاکستان کے ذریعےایک طرح سے بر صغیر کے مسلمانوں نے تاریخ سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ ہم نے ابھی تک قرار داد پاکستان کو State اور States کے درمیان معلق کر رکھا ہے۔ہم اس وقت موجودہ پاکستان میں جو وحدتیں شامل ہیں، ان کو بھی مطمئن نہیں کر پائے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان میں شامل سارے صوبوں اور وحدتوں کو صرف ترانوں کے ذریعے ایک قوم اور ایک منزل نہیں بنایا جاسکتا۔ ہم ان کو عدل، انصاف اور برابری کے سلوک سے ایک بناسکتے ہیں۔

23مارچ یوم پاکستان کے موقع پر قرار داد پاکستان کے ہم عمر پاکستانی ہونے کے ناطے میری گزارش یہ ہے کہ اس دن ہم عہد کریں کہ 14اگست 2021سے ہم ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کا آغاز کریں۔ وفاق کی سطح پر ایک ٹاسک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ سارے صوبے اور وحدتیں اپنی اپنی اصولی کمیٹی بنائیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں اپنے تحقیقی اور اشاعتی منصوبے تشکیل دیں۔ صنعتی ادارے بھی اپنے طور پر تجاویز مرتب کریں۔ اسے ایک جشن کے طور پر تجدیدِ عہد کے انداز میں منایا جائے۔ ایک ایسی مملکت اور ریاست کا تصور از سر نو پیش کیا جائے جہاں ہر فرد کو یکساں مواقع حاصل ہوں۔ روزگار کا تحفظ جان و مال کی حفاظت۔ اب ماشاء اللہ چاروں صوبوں اور دونوں وحدتوں میں اسمبلیاں کام کررہی ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں آزادیٔ اظہار،آزادی اجتماع کے حق سے ہمکنار ہیں۔ مختلف شعبوں میں پاکستان بہت سی منزلیں طے کرچکا ہے۔ میڈیا اگر چہ پاکستان کی اچھی تصویر بوجوہ پیش نہیں کرتا۔مگر الحمد للہ یہ سر زمین قدرتی وسائل اور جفاکش ذمہ دار بلوچوں، پشتونوں، پنجابیوں، سرائیکیوں، سندھیوں، کشمیریوں اور گلگتیوں سے مالا مال ہے۔ ہم یہ عہد کریں کہ اس ایک سال کے دوران ہم اپنا احتساب کریں گے۔ ناانصافیوں کو ختم کریں گے اور ایک مہذب قوم بن کر دکھائیں گے۔

تازہ ترین