• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کو اپنے انسان ہونے پہ بہت گھمنڈ ہے۔ تین لاکھ سال پہلے ہم نے جب ہوش سنبھالا توہمیں معلوم ہوا کہ جانوروں کو باندھ کر ہم ان پہ وزن ڈھو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہماراسینہ چوڑا ہوتا چلا گیا۔ انسان میں بہت سی منفرد خصوصیات تھیں۔ وہ لباس پہنتا اور آگ استعمال کرتا تھا۔ وہ زمین کھود کر لوہے اور کوئلے جیسی اشیا نکالتا اورا نہیں استعمال کرتا۔ اس کے ہاتھ اوزار استعمال کرنے کے لیے نہایت موزوں تھے۔ دوسرے جانوروں کے برعکس ، وہ دو ٹانگوں پہ سیدھا کھڑا ہو سکتاتھا۔ جانور لوہا سونگھ کر چھوڑ دیتے ، انسان اسے اپنے دشمن کے سر پہ مارنے کے لیے سنبھال رکھتا۔

ابتدا میں انسان یہ سمجھتا رہا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین ساکن ہے۔ دوسرا زمین پہ پائے جانے والے تمام جانوروں پہ وہ غالب تھا۔ اس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کائنات کا محور و مرکز ہے۔ دراصل وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں ، حضرتِ انسان کائنات کا محور و مرکز ہوں۔ اسی لیے گیلیلیو نے جب یہ انکشاف کیا کہ کئی چاند سیارہ مشتری کا طواف کر رہے ہیں تو چرچ نے اسے نظر بندی کی موت مار دیا۔وقت گزرتا گیا۔ چرچ کی حکمرانی ختم ہو گئی۔ سائنسدان انکشاف پہ انکشاف کر تے رہے۔ انسان کو معلوم ہوا کہ زمین تو سینکڑوں ارب سیاروں جیسا ایک سیارہ ہے اور سورج سینکڑوں ارب ستاروں جیسا ایک ستارہ۔ یہ سینکڑوں ارب ستارے تو صرف ایک کہکشاں کا حصہ ہیں۔ کائنات میں اس جیسی سینکڑوں ارب کہکشائیں پائی جاتی ہیں۔ انسان کائنات کا محور ومرکزتو کجا ، قابلِ ذکر بھی نہیں۔

اس کے باوجود انسان کے دل سے اپنے ناگزیر ہونے کا احساس کبھی ختم نہ ہو سکا۔ ا سٹیفن ہاکنگ نے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ انسان باقی رہنا چاہتا ہے تو اگلے سو برس کے اندر اسے زمین کے علاوہ ایک دوسرا ٹھکا نا ڈھونڈنا ہوگا۔ بین السطور یہی کہ انسان ذہین ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کی زندگی پانے کا حق دار ہے۔ یہ خواہش اس بیان میں جھلک رہی ہے کہ جب کرّہ ء ارض پر زندگی ختم ہو تو حضرتِ انسان کسی اور سیارے پر بیٹھا اس منظر کو دیکھ کر اس سے محظوظ ہو رہا ہو۔

ماہرینِ فلکیات زندہ چیزوں کے ماہر نہیں ہوتے بلکہ ماہرینِ حیاتیات۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ حیاتیاتی طور پر انسان اور دوسری زندہ چیزوں میں کوئی فرق نہیں۔ انسان ایک بکری اور چمپنزی ہی کی طرح پیدا ہوتا اور اور انہی کی طرح مر جاتاہے۔ انہی کی طرح اسے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی کی طرح وہ افزائشِ نسل کرتاہے۔ انسان کے پھیپھڑے ، گردے، جلد اور دل سمیت تمام اعضا انہی اصولوں پر کام کرتے ہیں ، جس طرح بھینس اور گھوڑے میں۔ انسان کہتاہے کہ میں دنیا کی سب سے خوبصورت مخلوق ہوں۔ یہ خوبصورتی اس وقت کہاں جاتی ہے ، جب موت آتی ہے ؟ موت آتی ہے تو آئن سٹائن جیسے دماغ اسی بے بسی کے ساتھ مر جاتے ہیں ، جس طرح ایک بکری مرتی ہے۔

کبھی آپ خلا میں جانے والوں کو ایک نظر دیکھیں۔ کمر پر سیلنڈر ، سر پہ ہیلمٹ اور پورے جسم پہ خصوصی لباس۔ انسان کبھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ زمین کے وسائل سے کسی اور سیارے کو آباد کر لے، وہاں آکسیجن سمیت زندگی کے دوسرے لوازمات فراہم کرنے لگے۔ یہ چیزیں کائناتی سطح پر تخلیق ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ سورج کے مدار میں کروڑوں سال تک بجلی کی رفتار سے ٹکراتے ہیں تو سیارہ تخلیق ہوتاہے۔ کششِ ثقل کا اس میں بنیادی کردار تھا۔ آپ مصنوعی طور پر ایک سیارہ تخلیق کر کے دکھائیں۔ زمین کی کششِ ثقل نے پانی کو پکڑا ہوا ہے۔ پانی زمین کے نیچے جاتا ہے تو روک دیا جاتاہے۔ بخارات بن کے اڑتا ہے تو بارش کی صورت میں زمین پر لوٹا دیا جاتاہے۔ یہ چیزیں ایسی نہیں کہ خدا کے علاوہ کسی اور کے لیے Feasibleہوں۔

یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ انسان مریخ اور دوسرے سیاروں کی طرف بھاگ رہا ہے کہ بے آب و گیاہ سیاروں پر آباد ہو کر اپنی جان بچا سکے۔ خطرہ اسے کس سے ہے ؟ انسان کو سب سے بڑا خطرہ انسان ہی سے لاحق ہے۔ چلیں آپ مریخ کی طرف بھاگ نکلیں لیکن افسوس کہ مریخ پہ کوئی ایسی چیز نہیں ، جس پہ بیٹھ کر انسان نظامِ شمسی سے فرار ہو سکے۔ قریب ترین ستارے /سورج الفا سینٹوری تک پہنچنے کے لیے انسان کو80ہزار سال درکار ہیں۔ اگر یہ سب پڑھ کر بھی اپنی برتری کا خمار نہ اترے توکبھی ہمیں غور کرنا چاہئے کہ انسان کے ذہین ہونے میں اس کا اپنا کردار کتنا ہے۔ صفر بٹا صفر!

تازہ ترین