• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ وزیر اعظم ہوتا

اب اگر ہم تُک بندی سے کام لے کر یوں نہ کہیں تو کیا کہیں ؎

پل پل بڑھتی مہنگائی اور سب اچھا کے دعوے

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ وزیر اعظم ہوتا

سچ تو یہ ہے کہ میری شاعری کی طرح یہ ملک بھی تُک بندی سے چل رہا ہے۔ ابھی تو رمضان شریف آیا ہے نہ ہی بجٹ اور ابھی سے پل پل تبدیلی سرکاری کی مہنگائی کرامات کا سلسلہ مزید زور پکڑ گیا ہے۔ ہمیںکسی سے کیا گلہ کہ کوئی ہم عوام کا ذاتی دشمن تو نہیں البتہ ہمارے پیٹ کے دشمن کئی ہیں ہم تو دعا ہی دے سکتے ہیں، کہ جن پر بارِ حکومت نے بار کیا اللہ تعالیٰ ان کے کاندھوں کا بوجھ ہلکا فرمائے ؎

بہت شور سنتے تھے پہلو میں جن کا

وہ آئے تو شورِ گرانی بھی لائے

اقبالؒ نے کہا تھا خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے، اور اب ہم کہتے ہیں جو گداہی گدا ہو وہ رہبری کیا ہے کہ بہر صورت اب پاسبان چمن ہی کچھ چارہ کریں کہ غریب عوام کہیں جانوروں کے چارے پر ڈاکا نہ ڈال دیں، قلم کی نوک محرموں کی نوک پلک سنوارنے کا کام کرتی ہے اور ظلم کی آنکھ پھوڑنےکا، کیوں کہ اس کی قسم رب ذوالجلال نے کھائی ہے، اس ملک میں 22 کروڑوں مفلسوں کی کمائی چند افراد یا خاندان کھا گئے، جب سے یہ ملک بنا ہے کمائو پتر طبقے کی زبان پر ایک ہی رٹ ہے ؎

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب

کوئی دن اور بھی جیے ہوتے

٭٭٭٭

پل پل بجتے لائوڈ اسپیکر

یاد ہو یا نہ یاد ہو، لائوڈ اسپیکر ایکٹ کسی زمانے میں بنا تھا، اور اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی گئی تھیں، مگر اب ہر کھوتا ریڑھی اور گلی کوچوں میں سامان بیچنے والوں کی سائیکلوں پر بھی لائوڈ اسپیکر نصب ہوتا ہے، فل والیوم پر بجنے والے ان پھیری لگانے والوں کے لائوڈ اسپیکرز نے کوچہ یار سے لے کر کوچہ نادار تک اودھم مچا رکھا ہے ، کیا اس کا بھی کوئی علاج اےحاکم شہر ہے کہ نہیں، اب تو خالی پیٹ عوام چین سے سو بھی نہیں سکتے، نہ جانے ہماری اخلاقیات ہمیں کس گڑھے میں دھکیل رہی ہیں۔ کیا مہذب ممالک میں کسی نے گلی کوچوں میں پھیری لگانے والے دیکھے ہیں، ریاست و حکومت چلانے والے ان پھیری لگانے والوں کے لئے چھوٹے بازار کھولے ورنہ اپنا بڑا سا منہ بند رکھے۔ اذان و خطبے کے علاوہ ایکٹ کے مطابق مساجد میں بھی لائوڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع ہے، مساجد اس لئے ہوتی ہیں کہ اس کے اندر موجود لوگوں کو وعظ و نصیحت سے نوازا جائے، پورے محلے کو سر پر اٹھانے سے کیا اہلِ محلہ کو کوئی استفادہ ہوتا ہے، ایک ہی گلی یا محلے میں جب 5 یا 6 مساجد کے بیس پچیس لائوڈ اسپیکر کی فل والیوم آوازآپس میں ٹکراتی ہے تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، اس سلسلے میں حکومت پنجاب ایکٹ پر عملدرآمد کرائے۔

٭٭٭٭

چلے بھی جائو کہ گلشن کا کاروبار چلے

290ارب کے ٹیکس!؟ یہ ملک ہے یا کوئی ’’ٹیکسال‘‘ ٹکسال تو نہ رہی اب ٹیکسال پر ہی گزارہ کریں، کورونا کا بھی علاج نکل آیا مگر ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی غربت اورٹیکسوں کی بھرمار کی مار کا کوئی مداوا نہ ہوا،بجلی صارفین پر 150ارب کا سرچارج؟ اب ایک ہی راستہ ہے کہ کنکشن نہ کٹوائیں، بجلی کا استعمال بند کردیں، دن کے اجالے میں سارے کام نمٹا لیا کریں اور رات کو پانی سے بھرے گڑھے میں بیٹھ کر نجات پانے کا چلہ کاٹیں، لاہور میں سرکاری ملازمین کے دھرنے، کیونکہ تنخواہ کے بجائے ٹیکس بڑھ گئے، وزیراعظم فرماتے ہیں ’’دوست ممالک نے دیوالیہ ہونے سے بچایا‘‘ مگر وہ دیوانہ ہونے سے نہیں بچا سکتے، ہمیں آج ٹوٹ کے سیماب اکبرآبادی یاد آئے؎

پُر شور گھٹائوں کا ممنون نہ ہونے دو

تم کو بھی تو آتا ہے دیوانہ بنا دینا

ایک ووٹر نے ایک ووٹر سے کہا ’’ہن ارام ای‘‘ یہ حال ہے جمہوریت کے ثمرات کا، بھلا یہاں اب انتخابات کی رسم ادا کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟

٭٭٭٭

گلِ نے کیا کیا گُل کھلائے

...o شہبازگل: متبادل عمران کا نہیں مریم نواز کا تیار ہو چکا۔

شہباز گل کو شاباش کہ وہ ہر روز حکومت کے آنگن میں ایک نیا گُل کھلا دیتے ہیں، مریم نواز کیا وزیر اعظم ہیں کہ ان کا متبادل تلاش کیا جائے؟ نوکری نبھانے میں منطق کا استعمال ضروری ہے۔

...o پیران عظام درباروں، سرکاروں میں سنت مجددی ادا کریں کہ ان کے مریدین میں تو اب نذرانہ دینے کی بھی سکت نہیں رہی۔

...o کوٹ سلطان میں استاد نے سبق یاد نہ کرنے پر طیش میں آ کر طالب علم پر ڈنڈا توڑ دیا، اس تشدد کا نوٹس کون لے گا، سبق سکھایا جائے گا تو کیا خاک تعلیم پھیلے گی۔

٭٭٭٭

تازہ ترین