• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر حکومت چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر اپوزیشن کو ’’شکست ‘‘ دینے کے بعد سمجھ رہی ہے اب دونوں ایوانوں پر اس کا کنٹرول ’’مضبوط ‘‘ ہو گیا ہےلیکن جہاں تک زمینی حقائق کا تعلق ہے ان کا حکومتی سوچ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔چیئرمین سینیٹ ایوان کی اکثریت کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے بلکہ 104ارکان کے ایوان میں ڈالے گئے98ووٹوں میں سے صرف 48ارکان کی حمایت حاصل کر سکے ہیں گو اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہار گئی ہے لیکن اس کے باوجود اسے ایوان میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے جو حکومت کوایوانِ بالا میں آسانی سے قانون سازی نہیں کرنے دے گی ۔ ایوان زیریں کی طرح ایوان بالا بھی ’’سیاسی اکھاڑہ‘‘ بنا رہے گاجیسا کہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’’ اپوزیشن کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں ایک ووٹ زیادہ لیا ہے لیکن ان کے7 ووٹ مسترد کر کے صادق سنجرانی کو کامیاب قرار دے دیا گیا ہے‘‘۔ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں صورت حال البتہ یکسر مختلف تھی، حکومت کے نامزد کردہ امیدوار مرزا محمد آفریدی نے 54 اور اپوزیشن کے امیدوارمولانا عبدالغفور حیدری نے 44ووٹ حاصل کئے ایسا دکھائی دیتا ہے اپوزیشن میں ’’قوم پرستوں ‘‘ نے ایک ’’مولوی‘‘ کو وٹ نہیں دیے جب کہ مرزا محمد آفریدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس چار ذاتی ووٹ ہونے کی وجہ سے حکومت نے انہیں ڈپٹی چیئر مین کا امیدوار نامزد کیا ۔پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدوار کوووٹ دینے کیلئے بیشتر سینیٹر کے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کی تصدیق کی ہے ۔ پریذائیڈنگ افسر سید مظفر شاہ، جن کا تعلق جی ڈی اے سے ہے، کی جانب سے 8 ووٹ مسترد قرار دینے کی رولنگ نے صادق سنجرانی کی کامیابی کو یقینی بنا یا ہے ۔ سید یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ’’ انتخابی قواعد و ضوابط میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ’’مہر کس جگہ لگانی ہے پولنگ بوتھ پر چسپاں ہدایت نامے پر بھی واضح طور پر لکھا تھا کہ من پسند امیدوار کے خانے میں مہر لگائیں، بہرحال اپوزیشن ارکان کے احتجاج کے باوجود پریذائیڈنگ افسر نے امیدوار کے نام کے اوپر اسٹیمپ ہونے کی وجہ سے7 ووٹ مسترد کر دیے اور کہا کہ اپوزیشن شور نہ مچائے، وہ میری رولنگ کے خلاف الیکشن ٹربیونل سے رجوع کر سکتی ہے۔ پارلیمانی حلقوں میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کی شکست بارے میں کئی’’ سازشی کہانیاں ‘‘ سنی جا رہی ہیں۔ چار کہانیاں زبان زد عام ہیں ایک یہ کہ آصف علی زرداری نے اپنے ’’مشکوک‘‘ ارکان کو امیدوار کے نام کے سامنے مہر لگانے کی ہدایت کی تھی جو بعدازاں ووٹ مسترد کئے جانے کا باعث بن گئی دوسری یہ کہ حکومت نے اپوزیشن کے سات ووٹ مسترد کرانے کا انتظام کر لیا تھا اور وہی حکمت عملی اختیار کی گئی جو اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں سید یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں عبد الحفیظ شیخ کو ناکام بنانے کے لئے اختیار کی تھی۔ تیسری کہانی یہ ہے کہ یہ سب بعض سینیٹرز کی ’’ کم علمی‘‘ کی وجہ سے ہوا جبکہ چوتھی کہانی یہ ہے کہ مریم نواز کی ہدایت پر مسلم لیگی ارکان نے سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہیں دیے لیکن اس کہانی میں جان نہیں کیونکہ بلاول بھٹو نے اس تاثر کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور اسے حکومت کی جانب سے ’’ڈس انفارمیشن ‘‘ قرار دیا ہے۔ بہرحال چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابی معرکہ میں شکست سے پی ڈی ایم کودھچکا لگا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب سے قبل اپوزیشن کے دو ارکان مصطفی نواز کھوکھر اور مصدق ملک نے پولنگ بوتھ پر نصب خفیہ کیمرے پکڑ لئے جس پر اپوزیشن نے بڑا ہنگامہ برپا کیا سیکریٹری سینٹ قاسم صمد نے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں کی تنصیب بارے تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے بہر حال خفیہ کیمروں کی تنصیب سینیٹ انتظامیہ کے لئے بدنامی کا باعث ضروربنی ہے۔ فواد حسین چوہدری نے تو سینیٹ کی وائرنگ اکھاڑنے پر اپوزیشن کو بل بھجوانے کا عندیہ دے دیا ہے ۔

تازہ ترین