• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اختلافات سے ملکی تاریخ کا ایک اور بڑا سیاسی المیہ رونما ہوا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس گیارہ جماعتی سیاسی اتحاد نے اپنا لانگ مارچ ملتوی کر دیا ہے، جو پروگرام کے مطابق 26مارچ کو ہونے والا تھا۔ یہ لانگ مارچ ایسے حالات اور ایک ایسے مرحلے پر ہو رہا تھا، جس کے بہت زیادہ گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوتے، جن کا ادراک صرف کچھ خاص حلقوں کو تھا۔ اس لئے یہ مارچ ملتوی ہوا یا یوں کہئے کہ منسوخ ہو گیا ہے۔ میرا جو مدعا ہے، اس کی وضاحت کے لئے ایک مباحثے کا تذکرہ ضروری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ 18اکتوبر 2007کو کراچی میں سانحہ کارساز رونما ہوا تھا، جب محترمہ بے نظیر بھٹو 8سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئی تھیں۔ لاکھوں افراد کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا تھا اور پھر اس استقبالی جلوس میں بم دھماکے ہوئے، جن میں 200سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو ئے تھے۔ 19اکتوبر 2007کو میرے گھر پر پاکستان کے کچھ سیاسی رہنما، صحافی اور سفارت کار بیٹھے ہوئے اس سانحے کے مضمرات پر غور کر رہے تھے۔ ایک انتہائی باخبر دوست نے بتایا کہ محترمہ بےنظیر بھٹو تمام معاملات طے کر کے وطن واپس آئی تھیں۔ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈالیز رائس نے سارے معاملات طے کرائے تھے۔ پاکستانی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بعض ضمانتیں بھی دی تھیں۔ محترمہ جن قوتوں سے اپنی جان کو خطرات کے خدشے کا اظہار کر رہی تھیں، وہ دوسری قوتیں تھیں، جن کے مفادات کو یہ معاملات طے ہونے سے خطرات پیدا ہو گئے تھے لیکن محترمہ کو یقین تھا کہ ان خطرات سے انہیں تحفظ ملے گا۔ اس لئے وہ تذبذب کے ساتھ وطن واپس آئیں۔

پھر ضمانت دینے والی قوتوں نے تو ان کو تحفظ کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب بھی اس دوست نے خود دیا، جو بعد کے حالات و واقعات نے صحیح ثابت کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ عوام کے جم غفیر نے ضمانت دینے والوں کے ارادے تبدیل کر دیے ہوں گے، انہوں نے محسوس کیا ہو گا کہ عوامی طاقت کے اس عظیم مظاہرے کو سبوتاژ نہ کیا گیا تو آئندہ پاکستان کی سالمیت پر ان کا کنٹرول نہیں رہے گا۔ کراچی ایئرپورٹ سے کارساز تک انہوں نے سوچا ہو گا، پھر ذہن تبدیل ہو گئے ہوں گے۔ اسی محفل میں ایک اور دوست نے تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کا بھی حوالہ دیا، جس میں عوامی طاقت کا اس قدر بھرپور مظاہرہ نہیں ہوا لیکن اس تحریک کے اثرات کو مٹانے کے لئے ابھی تک کوششیں ہو رہی ہیں۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عوامی طاقت کے کچھ مظاہرے اور کچھ تحریکیں ایسے جوہر کی حامل ہوتی ہیں، جو حقیقی مقتدر حلقوں کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں کئی سیاسی تحریکیں چلیں اور عوامی طاقت کے کئی بڑے مظاہرے ہوئے لیکن وہ بنگالیوں کی تحریک اور ایم آر ڈی کی تحریک جیسے جوہر کی حامل نہیں تھے۔

پی ڈی ایم کی تحریک بھی ایم آر ڈی کے بعد اسی جوہر کی حامل ہے۔ اگرچہ اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے معاملے پر شروع سے ہی پی ڈی ایم کی جماعتوں کے مابین اختلافات تھے لیکن یہ تحریک جتنا بھی چلی، اس کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ لانگ مارچ سے اگر تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی بھی خطرہ نہ ہو تا، تب بھی یہ لانگ مارچ پاکستان کی سیاسی کیمسٹری تبدیل کر دیتا کیونکہ طویل عرصے بعد ایسے سیاسی حالات بن گئے تھے، جن میں یہ لانگ مارچ کیفیتی تبدیلی کا سبب بن سکتا تھا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور مقتدر حلقوں کے سیاسی بیانیے کے غیر موثر ہونے سے یہ لانگ مارچ کیفیتی سیاسی تبدیلی کے لئے عمل انگیر (Catalyst) ثابت ہوتا۔ اس لانگ مارچ سے حقیقی تصادم جنم لے سکتا تھا، جس طرح ایم آر ڈی میں ہوا یا جس کا خدشہ 18اکتوبر کے جم غفیر سے کیا جا رہا تھا یا جس طرح بنگالیوں کی تحریک میں رونما ہوا۔ پی ڈی ایم کی بعض جماعتیں یا قیادت بھی اس تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہ تعین کرنا کہ لانگ مارچ کس نے ملتوی کرایا، کسی سیاسی فتوے سے ممکن نہیں۔ اس کے محرکات اور مضمرات کو سمجھنے کے لئے بڑے دائرے بنانا ہوں گے۔ چھوٹے دائروں میں حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ بڑے دائرے بنانے کے لئے اس سوال کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کو لانگ مارچ سے کیوں مشروط کیا گیا ؟

بہرحال ہماری نسل ایک بڑی سیاسی کیفیتی تبدیلی کو دیکھنے کے موقع سے محروم ہو گئی ہے۔ اب دوبارہ ایسے حالات پیدا ہوں تو شاید ہم نہ ہوں۔ کوئی اور نسل شاید ایسے حالات دیکھے گی۔ لانگ مارچ کا ملتوی ہونا میرے نزدیک ایک بڑا سیاسی المیہ ہے۔ بقول فیض ؔ

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم

تازہ ترین