• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرمایا،
”دعا مانگنے سے پہلے سوچ لو کہیں قبول ہی نہ ہو جائے“ (مفہوم)
ایک تصویر مجھے مدتوں سے ہانٹ کررہی ہے۔ اس تصویر میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ خان ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔ پیچھے بیورو کریسی کا ناگ راجہ غلام اسحق کھڑا ہے۔ پاکستان کے اقتدار کی ”ہینڈنگ اوور“ اور ”ٹیکنگ اوور“ کی یہ تصویر میں جب بھی دیکھتا ہوں پریشان ہو کر سوچتا ہوں کہ اگر اس تقریب کے دوران کوئی فرشتہ بھٹو کے کان میں سرگوشی کرتا …
”اے سر شاہنواز بھٹو کے ذہین اور ہوس اقتدار میں مبتلا خوبصورت بیٹے! تم جن دستاویزات پر دستخط کررہے ہو وہ بالآخر تمہارے”ڈیتھ وارنٹ“ میں تبدیل ہو جائیں گی۔ تم دراصل اپنی موت کے پروانے پر دستخط کررہے ہو۔“
بھٹو صاحب اسے شک شبہ کی نظر سے دیکھتے تو فرشتہ مستقبل کی وہ فلم چلا دیتا جس میں 4 اپریل کی رات کو سٹریچر پر ڈال کر انہیں تختہٴ دار کی طرف لیجایا جارہا ہے۔ پھانسی گھاٹ کے قریب پہنچ کر بھٹو خود چل کر تختہ دار پر چڑھتا اور پھر بالآخر نشے میں دھت تارا مسیح لیور کھینچ دیتا ہے اور سابق وزیراعظم کی لاش موت کے اندھے کنوئیں میں جھولنے لگتی ہے … کیا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی بھٹو اس بھیانک انجام والے اقتدار کے بھوکے شیر پر سوار ہو جاتا؟
”دعا مانگنے سے پہلے سوچ لو کہیں قبول ہی نہ ہو جائے“
خود میاں نوازشریف جب بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار پر طاری ہوئے تو کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ آس پاس ہی کہیں بارہ اکتوبر اور بھاری بوٹ … بھاری مینڈیٹ پر کتنے بھاری پڑنے والے ہیں اور چار دن کی اس چاندنی کے نتیجہ میں جلا وطنی کی کتنی طویل اور سیاہ رات راستہ کاٹنے کو تیار ہورہی ہے۔
پوری تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے۔
کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب اورنگ زیب عالمگیر اپنے ہی خون کے دریا بہا رہا تھا، اپنے ہی بھائیوں بھتیجوں کے سر اڑا رہا تھا تو اگر کوئی اسے بتا دیتا کہ اس خونی انتشار کے نتیجہ میں تیری اولادیں برہنہ کر کے مار دی جائیں گی۔ دو دو ٹکے کے معمولی گورے فوجی افسر تیرے پڑپوتے کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹیں گے اور تیری پڑپوتیاں، مغل شہزادیاں شکم کی آگ بجھانے کیلئے حسینی باورچی سے شادیوں پر مجبور ہو جائیں گی اور تیرے وارثوں کی بہو بیٹیوں کو روہیلہ کے اشارے پر سر دربار ناچنا ہوگا تو کیا محی الدین اورنگ زیب عالمگیر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی نہ کرتا؟ وہ یقینا ایسے اقتدار سے پناہ مانگتا ہے۔آج5 جون 2013 بارہ بجنے میں دس منٹ ہیں جب میں یہ کالم سپرد قلم اور حوالہٴ تاریخ کررہا ہوں۔ چند گھنٹے بعد نوازشریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال چکے ہوں گے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب انہیں سنبھال چکا ہوگا۔ شیکسپیئر کا اک کردار یاد آتا ہے۔"THE DEED IS DONE, WHAT SHALL I DO WITH THE DAGGER"آغاز نہیں انجام اہم ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا۔"ALL IS WELL THAT END'S WELL"یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ تیسری بار کی یہ وزارت عظمیٰ قدرت کی طرف سے انعام ہے یا امتحان … انعام ہے تو مکمل ہو چکا لیکن اگر امتحان ہے تو کیسا؟ کس نوعیت کا؟ اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ زیادہ دور اور دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔آج سے میٹر ڈاؤن سمجھو، کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا اور حالات ایسے ہیں کہ شاید ہنی مون کا وقت بھی نہ ملے۔ ن لیگ کے چند رنگین اور سینما سکوپ وعدے عوام کی روحوں میں سرایت کر چکے ہیں۔
ڈرون گرائیں گے
لوڈشیڈنگ مکائیں گے
لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے
معاشی دھماکے کریں گے
میں جان بوجھ کر ”دہشت گردی کے خاتمہ“ کا ذکر نہیں کررہا کیونکہ یہ کھیل اور کہانی ہی اور ہے۔ اس آدم خور درخت کی جڑیں صدیوں کی گہرائی میں دفن ہیں سو یہ مرض تو جاتے جاتے ہی جائے گا۔ کبھی یہ غائب ہوتا دکھائی دے گا کبھی ہلکا ہلکا محسوس ہوگا اور کبھی اس کی شدت میں اضافہ دکھائی دے گا لیکن یہ جان لیوا SEE, SAW چلتا رہے گا۔لیکن لوٹی ہوئی دولت کی واپسی میں کیا پرابلم ہے؟ سوئٹزرلینڈ سے لیکر انگلینڈ اور یورپی یونین سے لیکر یو این تک اس حوالے سے تاریخ ساز قانون سازی ہو چکی سو لوٹی ہوئی دولت واپس لانا بہت آسان ہو چکا … پاکستان منتظر ہے، پوری قوم منتظر ہے۔ڈائیلاگ بازی بند کر کے ڈلیوری شروع کریں۔ ہمیں بار بار ”مسائل“ نہ سنائیں نہ گنائیں کیونکہ پوری قوم کو ہر مسئلہ زبانی یاد ہے … پلیز! ان کے حل کی طرف آئیں اور عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں کہ اصل بات آغاز نہیں … انجام ہے۔مبارکباد … کچھ دیر بعد ڈرون بند ہو جائیں گے، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا، معیشت مستحکم ہوگی اور لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے گی۔ پھر میں کیا پاکستان کیا زمین آسمان آپ کو مبارک دیں گے۔
تازہ ترین