• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوبائیڈن کے امریکی صدر بننے اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیٰحدگی کے بعد ایک نیا عالمی منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے۔قبل ازیں، اِس خیال کا اظہار کیا جارہا تھا کہ شاید کووِڈ۔19 کی دوسری لہر سے پیدا شدہ گمبھیر صُورتِ حال کے پیشِ نظر عالمی معاملات2021 ء میں بھی جمود کا شکار رہیں گے، لیکن مغربی ممالک میں کورونا ویکسین آنے سے جو اعتماد پیدا ہوا، اُس نے خارجہ امور میں فعالیت پیدا کی ہے۔اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین اور مغربی ممالک میں معیشت کی بحالی توقّع سے بہت بہتر اور تیز رفتار ہے۔ امریکا نے حالیہ دنوں میں اپنی خارجہ پالیسی کے تناظر میں کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔صدرجوبائیڈن کے خارجہ پالیسی کے مشیر’’ انڈو۔پیسیفک‘‘ میں(جسے پہلے جنوب مشرقی ایشیا کہا جاتا تھا)، بہت فعال نظر آ رہے ہیں۔ بائیڈن کا چینی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ اور پھر’’ کواڈ گروپ‘‘کا وَرچوئل اجلاس، جس میں خطّے کی چار اہم طاقتوں کے سربراہان نے شرکت کی، اِس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔

جوبائیڈن کی صدارت میں ہونے والے اِس اجلاس میں جاپان، آسڑیلیا اور بھارت کے وزرائے اعظم نے شرکت کی۔ اُدھر، برطانیہ نے یورپی یونین سے علیٰحدگی کے بعد سال بھر کے غور وخوض کے نتیجے میں اپنی طویل المیعاد خارجہ پالیسی کے خدّوخال پارلیمان میں پیش کیے ہیں۔دِل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی بحرِہند اور جنوب مشرقی ایشیا کو محور بنایا گیا ہے۔تو کیا اِس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اوباما دَور کی مشرقِ وسطیٰ کو کم اہمیت دینے کی پالیسی دوبارہ اپنائی جا رہی ہے؟ یا یہ کہ اب جنوب مشرقی ایشیا ہی دنیا کا اہم مرکز ہوگا؟ غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ امریکا، بھارت کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر اِس نئے منصوبے میں شریک کر رہا ہے، جب کہ برطانیہ بھی اسے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی کردار کا حامل سمجھتا ہے۔کیا بھارت کو یہ اہم کردار اُس کے آبادی کے حجم کی بنیاد پر دیا جا رہا ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے؟

صدر ٹرمپ کے دَور میں امریکا اور چین کے باہمی تعلقات اِس حد تک کشیدہ تھے کہ’’ ٹریڈ وار‘‘ اور’’ سرد جنگ‘‘ جیسی اصطلاحات دُہرائی جانے لگی تھیں۔ایسا نہیں کہ اِس دَوران دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ملاقاتیں نہیں ہوئیں یا اعلیٰ ترین سطح پر رابطے منقطع ہوگئے، تاہم دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان جس قسم کی تلخی اور مخاصمت دیکھنے میں آئی، اُس کی مثال نئی صدی میں کم ہی ملتی ہے۔دراصل، صدر ٹرمپ، چین کو امریکا کی اقتصادی تنزّلی کا ذمّے دار سمجھتے تھے اور اُنہوں نے اسی بنیاد پر اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں چین سے تعلقات کی پالیسی تشکیل دی، جس سے کشیدگی کو بڑھاوا ملا۔جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین سے جو پہلا ٹیلی فونک رابطہ کیا، اُس میں واضح طور پر بتا دیا کہ وہ چین سے تعلقات اسی صُورت بہتر کریں گے، اگر اُس کا امریکا کو فائدہ ہو، جب کہ چینی صدر نے دو ٹوک انداز میں خبردار کیا کہ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات کی خرابی باقی دنیا پر بھی اثر انداز ہوگی۔

صدر بائیڈن نے اپنی اس پہلی فون کال میں بہت سے متنازع معاملات کا ذکر کیا، جن میں سنکیانگ اور ہانگ کانگ جیسے ایشوز بھی شامل تھے۔ظاہر ہے، اِس رابطے کو’’ فرینڈلی رابطہ‘‘ تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔تاہم، ماہرین کے مطابق یہ کسی سرد جنگ کا سگنل بھی نہیں تھا، البتہ اِس طرح کے رابطوں سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ امریکا آیندہ دنوں میں انڈو پیسیفک کو کس قدر اہمیت دے گا اور یہ بھی کہ اب چین سے مقابلہ اُس کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین نقطہ ہوگا۔اوباما دَور میں بھی، جب جوبائیڈن نائب صدر تھے، اس خطّے پر زیادہ توجّہ دی جا رہی تھی۔ اُنھوں نے جنوب مشرقی ایشیا کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون بنائے رکھا،خاص طور پر اوباما اپنے اقتدار کے آخری برس اِس خطّے کا بہت ذکر کرتے رہے۔ شرقِ اوسط اور مغربی ایشیا سے نکلنے کا بار بار اعلان کیا۔ 

یہ بھی کہتے رہے کہ’’ اب اِس علاقے میں امریکی مفادات بہت کم ہوگئے ہیں، کیوں کہ امریکا تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہوچُکا ہے۔‘‘ یاد رہے، دوسری عالمی جنگ سے قبل بھی جنوب مشرقی ایشیا میں یہی صُورتِ حال تھی۔ اس خطّے میں امریکا کے علاوہ دو بڑی طاقتیں ہیں۔ ایک چین اور دوسری جاپان۔ٹوکیو، واشنگٹن کا سب سے اہم اتحادی ہے اور اس نے اسی کو خطّے کی پالیسی کی بنیاد بنایا ہے، جب کہ اُس کا اصل مقابلہ چین سے ہے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا کو چین کی شکل میں ایک ایسے مدّ ِمقابل کا سامنا ہے، جس کی معیشت جلد یا بدیر اُس کے برابر ہوجائے گی۔سوویت یونین سے اُس کی سرد جنگ تقریباً چالیس سال چلی، تاہم سوویت اکانومی کبھی بھی امریکی معیشت کی چالیس فی صد سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ یوں امریکا کو اُس پر واضح برتری حاصل رہی، لیکن چین کا معاملہ دوسرا ہے۔چین اِس وقت بھی کئی لحاظ سے امریکا کے برابر ہے۔خاص طور پر اس کی کنزیومر مارکیٹ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

اسی طرح اس کے زرِمبادلہ کے ذخائر بھی امریکا سے کچھ ہی کم ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے، تو ٹرمپ نے چین سے مقابلے کی جو پالیسی اپنائی تھی، اس کا مقصد امریکیوں کو یہ احساس دِلانا تھا کہ اُن کا اصل مدّ مقابل کون ہے؟ اور وہ کس تیزی سے اُن پر حاوی ہوتا جا رہا ہے؟ ٹرمپ کا زیادہ زور امریکا کی اقتصادی بحالی ہی پر رہا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑی حد تک کام یاب بھی رہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے حالیہ تجزیوں کے مطابق، جسے’’ پوسٹ کووِڈ بحالی‘‘ بھی کہا جا رہا ہے،رواں سال امریکا کی ترقّی کی رفتار شاید دنیا میں سب سے زیادہ رہے، جو 7.3 کے لگ بھگ ہو گی، جب کہ چین کی شرحِ ترقّی 6 رہے گی۔اس کی بڑی وجہ ٹریلین ڈالرز کے وہ پیکیجز ہیں، جو پہلے ٹرمپ اور اب جوبائیڈن کی جانب سے عوام اور کاروباری طبقے کو سہارا دینے کے لیے دئیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے چار ممالک پر مشتمل’’ کواڈ گروپ‘‘ کا اجلاس ہوا۔ اس گروپ کا تعلق انڈو پیسیفک سے ہے۔اجلاس میں امریکا کے صدر جوبائیڈن، بھارت کے وزیرِ اعظم، نریندر مودی، جاپان کے وزیرِ اعظم، سوگا اور آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم، اسکاٹ مورسن نے شرکت کی۔بظاہر یہ اجلاس کورونا ویکسین کی تیاری اور مختلف ممالک کو اس کی فراہمی کے سلسلے میں تھا۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ خطّے کے تمام ممالک کو ویکسین ایک سال میں فراہم کردی جائے گی، تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ کواڈ‘‘ انڈو پیسیفک میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیاتھا۔

اسے جاپان کے شنزو ایبے نے 2007 ء میں قائم کیا تھا، لیکن ایک، دو اجلاسوں کے بعد ہی یہ گروپ غیر فعال ہوگیا، کیوں کہ اُس وقت ہوم ورک ناکافی تھا یا پھر ان طاقتوں کو چین سے کسی بڑے چیلنج کا فوری سامنا نہیں تھا، لیکن جس تیزی سے چین نے اقتصادی میدان میں ترقّی کی، وہ اُنھیں چونکا دینے کے لیے کافی ہے۔ چین نے اس معاشی ترقّی کو اپنی فوجی قوّت میں اضافے سے بھی منسلک کردیا ہے۔

صدر شی جن پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد بیجنگ عالمی سطح پر متحرّک ہونا شروع ہوا اور اب وہ دنیا میں کسی مرکزی کردار کا متمنّی نظر آتا ہے۔حال ہی میں اُس نے’’ ایڈاوانس ٹیکنالوجی‘‘ کو اپنی پالیسی کا ایک ستون بنانے کا اعلان کیا ، اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اب پیچھے ہٹنے والا نہیں۔اسی لیے’’ کواڈ‘‘ کے اجلاس میں خطّے کی مجموعی صُورتِ حال کے ساتھ، دنیا اور خاص طور پر چین کا اُبھرتا کردار بھی زیرِ غور آیا۔اس امر کا اندازہ چاروں سربراہان کی طرف سے دیے گئے بیانات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا’’ ہم نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ خطّے میں نظم ونسق بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور یہ کہ ہم عالمی اقدار کو یقینی بنائیں گے۔‘‘جاپان کے وزیر اعظم نے چین پر سخت موقف اپنایا اور خطّے کی قانونی حیثیت بدلنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔اُن کے مطابق، شرکاء نے جاپان کی حمایت کی۔

بھارت کے وزیر اعظم نے کہا کہ’’ اس اجلاس کے ایجنڈے پر ویکسین، موسمیاتی تبدیلیاں اور ابھرتی ٹیکنالوجی جیسے امور تھے اور چاروں سربراہان نے ان کے لیے وسائل بڑھانے پر اتفاق کیا۔‘‘آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم نے کہا’’ یہ اجلاس ایک نئے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ چین کا تبصرہ معنی خیز تھا۔ اجلاس سے قبل چین نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ’’ اقوام کو کسی بھی تیسرے فریق کے مفادات کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور ان ممالک کو مخصوص بلاکس نہیں بنانے چاہئیں۔‘‘نیز، شرکائے اجلاس نے خطّے کو آزاد اور سب کے لیے قابلِ دسترس رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ان بیانات اور ان پر چین کی تنقید سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کواڈ کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔

برطانیہ نے پارلیمان میں بریگزٹ کے بعد کی خارجہ پالیسی پیش کی ہے۔ ایک سو صفحات پر مشتمل رپورٹ 2030ء تک کا احاطہ کرے گی۔اس میں بھی مرکزی فوکس بحرہند اور جنوب مشرقی ایشیاء ہی پر رکھا گیا ہے۔شاید لندن، یورپ سے علیٰحدگی کے بعد دوسرے خطّوں میں اپنے تعلقات مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے، برطانیہ دوسری عالمی جنگ سے قبل ایک عالمی طاقت تھا، جس کی نوآبادیاں جنوب مشرقی ایشیا سے افریقا تک پھیلی ہوئی تھیں۔

اس رپورٹ میں چین کو ایک حریف کے طور پر نہیں لیا گیا، لیکن اس میں جاپان، آسٹریلیا اور بھارت سے تعلقات بڑھانے کی بات کی گئی ہے، جب کہ جوہری ہتھیاروں میں کمی کا بھی اشارہ دیا گیا ، لیکن ان کی گزشتہ تعداد کے مقابلے میں اسے زیادہ کرکے260 پر رکھنے کی تجویز ہے، پہلے یہ180 تھی۔ اسی دستاویز میں بحرِہند اور بحرالکاہل کو زبردست اہمیت دیتے ہوئے کہا گیا کہ برطانیہ وہاں اسٹریٹیجک اتحاد کو فروغ دے گا۔ 

اُس نے اِسے دنیا کا تیزی سے اُبھرتا ہوا خطّہ قرار دیا ، لیکن وزیر اعظم بورس جانسن نے ہاؤس آف کامنز میں اس پالیسی کے خدّوخال بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ’’ بریگزٹ کے بعد مُلک کو مخالف اقدار رکھنے والے ممالک سے مقابلے کا فن ازسرنو سیکھنا ہوگا۔‘‘اسے چین کی جانب اشارہ سمجھا گیا۔ اگر غور کیا جائے، تو برطانیہ بھی اس خطّے کو کواڈ جتنی ہی اہمیت دے رہا ہے۔بورس جانسن نے اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ برطانیہ کے لیے نیٹو کا دفاعی اتحاد اور یورپ میں امن کے قیام کو اس کی پالیسی میں ترجیحی اہمیت حاصل رہے گی۔یاد رہے، نیٹو میں امریکا نہ صرف شامل ہے، بلکہ مالی اور فوجی لحاظ سے سب سے اہم کردار بھی رکھتا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین کے ساتھ تعلقات مثبت ہیں۔خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں میں چین کے بغیر ڈائل شفٹ کرنا ممکن نہ ہوگا۔جب اُن سے چین سے متعلق سخت پالیسی اپنانے کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُنہوں نے کہا’’ چین کو اب یہاں رہنا ہے۔‘‘لگتا ایسا ہے کہ برطانیہ، چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے، اسی لیے وہ کسی درمیانے راستے کی تلاش میں ہے، جو بڑی حد تک خود مختار ہو، لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا اور یورپ ہوسکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق، برطانیہ جدید ٹیکنالوجی، جیسے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو استعمال کرکے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہے گا، لیکن اس کے ساتھ وہ ایک بڑی اقتصادی طاقت بھی بننا چاہتا ہے تاکہ سافٹ اور ہارڈ، دونوں پاورز اُس کی دسترس میں رہیں۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد والی کیفیت دُہرانا نہیں چاہتا، جب وہ جنگ جیت کر بھی معاشی کم زوری کی وجہ سے بکھر گیا تھا۔اِس ضمن میں دیکھا جائے، تو جانسن انتظامیہ نے دفاعی مَد میں جو 16.5ارب پائونڈ کا اضافہ کیا ہے، وہ سمجھ میں آتا ہے۔یہ اخراجات اگلے چار برسوں تک جاری رہیں گے۔

اگر امریکا اور برطانیہ کی خارجہ پالیسی دیکھی جائے، تو دونوں ہی چین کی بڑھتی اقتصادی اور فوجی قوّت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔چوں کہ امریکا سُپر پاور ہے، اِس لیے وہ براہِ راست اقدامات کر رہا ہے۔ وہ ایسے گروپس اور فورمز قائم کر رہا ہے، جو چین سے مقابلے میں اُس کے معاون ثابت ہوسکیں، جب کہ برطانیہ بھی یہی کام کرنا چاہتا ہے، تاہم بریگزٹ کی وجہ سے احتیاط سے قدم اٹھا رہا ہے۔

وہ چین کے ساتھ مفاہمت کی راہ کو اہمیت دیتا ہے، اس کے باوجود کہ گزشتہ سالوں میں اُس کی جانب سے خاصے تلخ بیانات سامنے آئے، لیکن وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ چین ایک ایسی اُبھرتی ہوئی طاقت ہے، جو دنیا میں اپنے گہرے اثرات رکھتی ہے اور اُسے بزورِ طاقت روکنا ممکن نہیں۔حقیقت یہی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا،فوجی اور اقتصادی لحاظ سے اب دنیا کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت اختیار کرچُکا ہے، جس کے اثرات بحرالکاہل ہی نہیں، بحرِ ہند کے ممالک پر بھی مرتّب ہوں گے۔

تازہ ترین