آپ غور سے دیکھیں ۔سامنے تین لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک آدمی کا نام ہے، ایرا۔دوسرے آدمی کا نام ہے غیرا۔ اور تیسرے آدمی کا نام ہے نتھو خیرا ۔ ایرا، غیرا، نتھو خیرا آپس میں دوست ہیں۔ ان تینوں کا اپنا اپنا ایک ہیرو ہے۔ وہ اپنے اپنے ہیرو کو بے انتہا چاہتے ہیں۔گہرے دوست ہونے کے باوجود وہ اپنے اپنے ہیرو کا آپس میں موازنہ کرتے ہوئے لڑ پڑتے ہیں۔ ایک کا ہیرو سنتوش کمار ہے ۔دوسرے دوست کا ہیرو درپن ہے۔ اور تیسرے دوست کا ہیرو وحید مراد ہے۔ ان کاماتھا تب ٹھنکتا ہے جب ان کی مڈ بھیڑ ایسے لوگوں سے ہوتی ہے جن کے ہیرو محمد علی ،ندیم، شاہد اور سلطان راہی ہوتے ہیں۔ایک بات ہمیںذہن نشین کر لینی چاہئےکہ زندگی میںہمارا ایک ہیرو نہیں ہوتا۔ چونکہ ایرے، غیرے اور نتھو خیرے کو پینٹنگ سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے،اس لئے کوئی پینٹر ان کا ہیرو نہیں ہے۔ وہ تو کسی آرٹسٹ کا نام تک نہیں جانتے۔ ان کو ادب سےکوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے کوئی ادیب ان کا ہیرو نہیں ہے۔ ان کو شعر و شاعری سے کسی قسم کی کوئی رغبت نہیں ہے۔ اس لئے کوئی شاعر ان کا ہیرو نہیں ہے، ان کی کھیلوں میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اس لئے کوئی کھلاڑی ان کا ہیرو نہیں ہے۔ جس کو دنیا کا عظیم ترین کھلاڑی ثابت کرنے کیلئے وہ لڑنے مرنے کو تیار ہو جائیں ۔ایرے غیرے اور نتھو خیرے کی تمام تر دلچسپی فلموںتک محدود ہے۔ اس لئے ان کے ہیروز کا تعلق لامحالہ فلمی دنیا سے ہوتا ہے۔ایرے ،غیرے اور نتھو خیرے کی طرح ہماری زندگی میں بھی ہیرو ہوتے ہیں۔ بلکہ ہماری ذہنی وابستگی کے مطابق ہمارے اپنے ایک سے زیادہ ہیرو ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر آپ کو شعرو شاعری سے شغف ہے۔ ایسے میں آپ کسی ایک شاعر کو،اس کی شاعری کو،اس کے فن کو بے انتہا پسند کرتےہیں۔ آپ کو فٹبال کے کھیل سے جنونی لگائو ہے،آپ میراڈونا کو دنیا کا عظیم ترین فٹبالر مانتے ہیں،آپ ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو پیلے کو دنیا کا سب سے بڑا فٹبالر سمجھتے ہیں، آپ کو فنون لطیفہ سے لگائو ہے۔ آپ مائیکل اینجلو کو دنیا کا عظیم ترین آرٹسٹ مانتے ہیں۔آپ ایسے لوگوں سے الجھ پڑتے ہیں جو ونسینٹ وان گویا صادقین کو عظیم آرٹسٹ مانتے ہیں، اس نقطہ نظر سے آپ کے تین ہیروز ہیں۔ ایک غالب ،دوسرا میرا ڈونا اور تیسرا مائیکل اینجلو ،اپنی گونا گوں دلچسپیوں اور وابستگیوں کے حوالے سے ہمارے ایک سے زیادہ ہیرو ز ہوتے ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔آپ کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہے،آپ سیاست دانوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ماضی اور حال کے سیاست دانوں کا موازنہ کرتے ہیں، کسی ایک سیاست دان کو غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے بہت پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ابراہم لنکن کو بے انتہا ،اس لئے سراہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میںانہوںنے غلاموں کی خریدوفروخت کوغیر اخلاقی،غیر قانونی اور انسانیت کی توہین قرار دیتے ہوئے امریکہ میں غلاموں کی تجارت پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔ موجودہ دور میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو نیلسن منڈیلا کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ عین اسی طرح برصغیر کے کروڑوں لوگ قائداعظم محمد علی جناح کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ کروڑوں لوگ اس کے برعکس مہاتما گاندھی کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔درحقیقت ہم سب اپنی اپنی پسند اور اپنی ناپسند کے خادم ہوتے ہیں۔ شعوری پختگی آ جانے کے بعد ہم اپنے والدین کی پسند کے کپڑے نہیں پہنتے۔ ہم اپنی پسند کے کپڑے پہنتےہیں۔اس کو آپ بچوں کی والدین سے بغاوت نہیں کہہ سکتے۔ جس طرح ہم سب کی شکلیں ایک جیسی نہیں ہوتیں، عین اسی طرح ہماری سوچ، ہمارے رویے ایک جیسے نہیںہوتے۔ اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق ہم اپنے فیصلے آپ کرنے لگتے ہیں۔ ان فیصلوں میں ہماری تعلیمی اور تربیتی سطح اور صلاحیتوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ ہی عمل دخل لیکر ہم اپنے اپنے ہیرو کی پذیرائی کرتے ہیں، اگر ہماری تعلیم و تربیت کم درجے کی ہو گی تو پھر ہم اپنے ہیرو کی پذیرائی منطق سے مبرا، دیو مالائی صفتوں سے کرنے لگتے ہیں۔ وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ پینلٹی شوٹ آئوٹ میں جب میرا ڈونا کک لگاتے تھے تو گول کیپر گیند کے ساتھ گول کی جالی سے باہر جا گرتا تھا، اس قدر طاقت ہوتی تھی میرا ڈونا کی کک میں۔پڑھا لکھے اعتدال کی حدود میں رہتے ہوئے مدلل ،قابل فہم اور منطقی پذیرائی کرتے ہیں۔تعلیم اور تربیت سے نابلد لوگ ہمارے ہیروز کے پرستار تو ہوتے ہیں، مگر ان کی تعریف اور توصیف میں مبالغے کی تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ہمارے سیاسی لیڈر تھے۔ ہماری طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے تھے۔ اگر کوئی پرستار بضد ہو جائے اور دعویٰ کرتا پھرے کہ قائد اعظم کو قدرت نے کرامات سے بھی نوازا ہوا تھا۔ اگر وہ قائد اعظم کی تعریف کے پل باندھتے ہوئے بتاتا پھرے کہ قائد اعظم نے جب کھارا در کے لوگوں کو کھارا پانی پیتے ہوئے دیکھا،تب بہت دلبرداشتہ ہوئے تھے۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ کھارا در کے لوگوں کے لئے میٹھا پانی مہیا کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے عین اسی وقت علاقے میں میٹھا پانی چھوڑ دیا۔ اس علاقہ کا نام ہے میٹھا در، ان کتھائوں سے آپ اپنے ہیرو کا قد نہیں بڑھا سکتے۔ کل کوئی پرستار دعویٰ کر سکتا ہے کہ قائد اعظم ڈاکٹر بھی تھے۔وہ حکمت، ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی سے لوگوں کا مفت علاج کرتے تھے ! اس نوعیت کے پرستاروں کی تعداد لاتعداد ہوتی ہے، ان کی باتیں سینہ بہ سینہ وائرس کی طرح پھیل جاتی ہیں ایسے لوگ کبھی محسوس نہیں کرتے کہ ان کی اپنی کم مائیگی کی وجہ سے وہ اپنے ہیرو کیلئے کس قدر ضرر کا سبب بن رہے ہیں۔