• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ صدر صاحب نے فرمایا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی شکست پر ستمبر کے بعد گفتگو کریں گے اور وہ تمام اسباب بیان کریں گے جن کے باعث پیپلز پارٹی کو ایک ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی توقع نہیں تھی، لیکن وہ یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ انہوں نے الیکشن کے فوراً بعد خود ہی فرمایا تھا کہ پیپلزپارٹی کے خلاف عالمی سازش ہوئی ہے اور اس سازش میں کچھ قومی ادارے بھی شریک ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود پیپلزپارٹی کے اندرونی حلقے شکست کا ذمہ دار اس گیارہ رکنی ٹیم کو تصور کر رہے ہیں جنہوں نے پانچ سالہ اقتدار کو پوری طرح استعمال کیا مثلاً برادرم تنویر حسین ملک کے گھر پر میری ملاقات قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی سے ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ پی پی شکست پر خاموش کیوں ہے، کیوں آپ لوگ احتجاج نہیں کرتے۔ جواباً ڈی آئی خان کا نوجوان سیاستدان بولا کہ ”پہلے ڈاکٹر عاصم حسین اور رحمن ملک سڑکوں پر آجائیں پھر ہم بھی آجائیں گے…“ فیصل کریم کنڈی نے صرف دو نام لئے مگر پیپلزپارٹی کے باقی لوگ پوری گیارہ رکنی ٹیم کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں فاروق ایچ نائیک اور حفیظ شیخ کا نام بھی شامل ہے۔ جس میں یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف اور صدر صاحب کی ہمشیرہ کا نام بھی شامل ہے۔ چار عورتوں اور سات مردوں پر مشتمل اس گیارہ رکنی ٹیم ہی کو پیپلز پارٹی شکست کا ذمہ دار تصور کرتی ہے۔ اس ٹیم میں چند سیاسی اور اکثر غیر سیاسی کھلاڑی ہیں۔ مثال کے طور پر یوسف رضا گیلانی ہی کو لے لیجئے جو قریباً پانچ سال دن کو حاضری لگاتے رہے اور شام کو حاضری ”لگواتے“ رہے۔ ان کے نصف شب کے فون بڑے مشہور ہوئے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب میں ٹکٹوں میں اتنی گڑبڑ کی کہ جہاں سے پیپلزپارٹی نہیں ہارتی تھی وہاں سے بھی ہار گئی۔ مزید تفصیلات کے لئے دو سادات سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ویسے تو ایک سید کی گواہی کافی ہے مگر میں پھر بھی آپ کی تسلی کے لئے یہاں دو نام رقم کر رہا ہوں ایک میرے دوست سید ممتاز عالم گیلانی ہیں، دوسرے ملتانی پیر حامد سعید کاظمی ہیں۔
اب آتے ہیں پی ٹی آئی کی طرف۔پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ واقعی کچھ حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ تحریک انصاف کا موٴقف ہے ورنہ میری نظر میں تو ہر طرف دھاندلی ہوئی ہے جہاں جس کا بس چلا اس نے اپنی چلائی۔ خیر پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کے نام نہاد پارلیمانی بورڈ نے پتہ نہیں کس چیز کو میرٹ بنا رکھا تھا کہ بہت سے ٹکٹ غلط دے دیئے گئے۔ اوپر سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن نے بھی کمال دکھائے۔ اب جب پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا میں حکومت قائم ہو چکی ہے تو میری دعا ہے کہ وہ اس صوبے میں تبدیلی ضرور لائیں۔ مجھے فوزیہ قصوری کے رونے دھونے نے خیبر پختونخوا کی وہ خواتین یاد کروا دی ہیں جن کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہوئی، فوزیہ قصوری کے ساتھ صریحاً ناانصافی نہیں ہوئی اور اگر اب وہ پی ٹی آئی چھوڑ رہی ہیں تو یہ ان کی سیاسی ناپختگی ہوگی۔ میرے دو دوستوں حافظ حسین احمد اور مخدوم امین فہیم کے ساتھ ان کی پارٹیوں نے ناانصافیاں کیں مگر وہ ہنوز اپنی پارٹیوں میں ہیں۔ حافظ صاحب کے پاس میں خود دو مرتبہ پیش کش لے کر گیا مگر وہ انکاری رہے، مخدوم امین فہیم (دادا سائیں) نے مجھے ایک ایسی بات بتائی کہ میں اس کے حوصلے کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا کہ جس کا جہاں بس چلا اس نے دھاندلی کی مثلاً خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے صدر اسد قیصر اور موجودہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے عورتوں کی نشستوں پر دھاندلی کی۔ انہوں نے کچھ خواتین کے کاغذات نامزدگی ہی غائب کئے یا کرائے اور ان کی جگہ اپنی رشتہ دارخواتین کو نامزد کر دیا، جن خواتین کے کاغذات غائب ہوئے وہ کاغذات کے ایسے تمام ثبوت جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سیف اللہ نیازی کے حوالے کر چکی ہیں اس میں ڈرافٹ کی کاپیاں اور ڈاک کے ثبوت بھی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا نے جہاں ایک طرف سیما درانی، شازیہ ناز، نادیہ ریاض او معروف سلیم کے کاغذات نامزدگی غائب کئے وہیں نیلم طورو اور ڈاکٹر حجمیرہ کو نظر انداز کر دیا۔ تحریک کی جدوجہد کے مراحل میں نمایاں کردار ادا کرنے والی ان خواتین کو نظر انداز کر کے فہرست میں مسرت احمد زیب، ساجدہ ذوالفقار، نرگس نیر بابر، روزینہ اور فوزیہ بی بی شامل کر دی گئیں ۔ مسرت احمد زیب کی واحد قابلیت یہ ہے کہ وہ پرویز خٹک کے بھائی کی سالی ہیں۔ ساجدہ ذوالفقار پرویز خٹک کی کزن ہیں، نرگس نیر بابر کی قابلیت صرف یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ایک رہنما نیر بابر کی اہلیہ ہیں، باقی خواتین کی صلاحتیں یا قابلیت اسد قیصر بتا سکتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان خواتین کو پی ٹی آئی نے نہ کبھی کسی مظاہرے میں دیکھا نہ ہی جلسے میں، بس اتنا ہی کافی ہے مزید تفصیلات کا درج کیا کرنا۔ نیلم طورو، نادیہ ریاض، سیما درانی اور معروف سلیم تو تحریک انصاف کے ہر مظاہرے اور جلسے میں شریک ہوتی رہیں ان خواتین کی جدوجہد پر پورا پورا کالم لکھا جا سکتا ہے۔ آج صرف ڈاکٹر حجمیرہ کا ذکر کرتا ہوں۔ سوات سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر حجمیرہ تحریک انصاف کے شعبہٴ صحت عامہ کی سیکرٹری ہیں فرنٹیئر میڈیکل کی فارغ التحصیل حجمیرہ تحریک انصاف کی خاطر فری کیمپ لگاتی رہی۔ جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہوتی رہی۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر حجمیرہ کو پانچ چھ انٹرنیشنل آرگنائزیشنز میں کام کا تجربہ ہے۔ اب جب کہ پی ٹی آئی انہیں ٹکٹوں کے معاملے میں نظر انداز کر چکی ہے تو خیبر پختونخوا کی حکومت ڈاکٹر حجمیرہ کی قابلیت اور تجربے سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ رہی بات فوزیہ قصوری کی تو انہوں نے بہت جدوجہد کی ، حامد خان نے ان کا راستہ روکا، پنجاب کے کچھ مضبوط سیاسی خاندان تحریک انصاف کا حصہ بننا چاہتے تھے اس وقت بھی یہی غیر سیاسی حامد خان رکاوٹ بن گئے تھے۔
صاحبو! میں نے مسلم لیگ ن سے جان بوجھ کر مریم نواز کو مخاطب کیا ہے کہ مریم نواز سے میری ان دنوں کی ملاقاتیں ہیں جب ان پرکٹھن وقت تھا۔ وہ، ان کی والدہ کلثوم نواز ، بہن اسماء نواز اور بھابی سائرہ حسین سے اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب شریف خاندان کے تمام مرد (سوائے ذکریا حسین کے) پس دیوار زنداں تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات بیگم عشرت اشرف کے گھر ہوئی۔ بیگم کلثوم نواز نے بھرپور عوامی جدوجہد سے سیاسی مراحل کو بڑی جلدی طے کیا۔ تو مریم نواز نے بھرپور صلاحیتوں کی بنیاد پر بیرونی دنیا کو قائل کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں مریم نواز سفارت کاروں سے ملاقاتوں میں مصروف رہتی تھیں، کچھ ملاقاتیں خورشید زمان کے گھر پر بھی ہوئی تھیں، میں مریم نواز سے صرف اتنا کہتا ہوں کہ آج آپ کے اردگرد کیا وہ لوگ نہیں ہیں جو آپ کی مخالفت کرتے تھے، آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور مشرف کے گیت گاتے تھے خود احتسابی کے عمل سے گزریئے، غور کیجئے اب مسلم لیگ ن کی جیب میں بہت سے کھوٹے سکّے وہ ہیں جو آمر کے نوکر تھے جو آمر کے حواری تھے۔ آپ کی پارٹی میں بھی کچھ خواتین ایسی آئی ہیں جنہیں کبھی نہ مسلم لیگ نے دیکھا تھا نہ مسلم لیگ کے کسی جلسے نے دیکھا، صاحبزادیاں، بھانجیاں اور بھتیجیاں تو مسلم لیگی نہیں ہیں، ہاں آپ کے پاس تہمینہ دولتانہ ، نجمہ حمید، نزہت عامر اور عشرت اشرف جیسی خواتین ہیں جنہوں نے بہت جدوجہد کی۔ آپ کے پاس انوشہ رحمن، عارفہ خالد، شائستہ پرویز ملک اور زیب جعفر جیسی باصلاحیت سیاسی خواتین ہیں مگر آپ کی فہرست میں بہت سے نام ایسے ہیں جو سیاست نے کبھی نہیں دیکھے تھے، بہت سی صاحبزادیاں، بھانجیاں، بھتیجیاں جنہوں نے جدوجہد میں حصہ بھی نہیں لیا، کیا یہ کارکن خواتین کے ساتھ ناانصافی نہیں، کمال ہے آج آپ کی فہرست سے تو بیگم عشرت اشرف بھی خارج ہو گئیں جنہوں نے مسلم لیگ کے لئے کم و بیش تیس سال جدوجہد کی، تیس سالہ محنت کا ثمر فہرست سے اخراج ہے، شاباش، پاکستان کی تمام پارٹیوں کو شاباش، اس ناانصافی پر۔
تازہ ترین