• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
3 جون 2013ء کا روشن دن تھا۔ ہماری چودہویں پارلیمینٹ اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کے نومنتخب رکن محمود خان اچکزئی پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے مختصر لفظوں میں پارلیمینٹ اور جمہوری عمل کے بارے میں ایک بنیادی نکتے پر اظہار خیال کیا۔ محمود اچکزئی نے سوال اٹھایا کہ ”ہم آئین کے تحت حلف اٹھا رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پارلیمینٹ کے ارکان آئین کی بالادستی اور اس حلف کی توقیرکے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں“۔ یہ ہماری تاریخ کا جبر ہے کہ پارلیمینٹ میں بہت سے ایسے چہرے رونق افروز ہیں جنہوں نے ماضی میں مختلف مواقع پر آئین روندنے والوں کا ساتھ دیا۔ محمود اچکزئی پاکستان کے مدبر سیاست دانوں کی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بندوق بردار آمریت کے خلاف نہتی جمہور کی دست بدست لڑائی میں ہمارے شفاف دامنوں پر بہت سے دھبے لگے تاہم ہمارے ملک کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں آصف علی زرداری ، نواز شریف اور اسفند یار ولی کے شانہ بشانہ محمود اچکزئی ، اختر مینگل، رضا ربانی اور پرویز رشید بھی موجود ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت سے کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں لیکن ترقی پذیر ملکوں میں جمہوری جدوجہد کی ایسی روشن روایت کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ امر اور بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے استحکام اور اہل پاکستان کی ترقی کیلئے یہ آوازِ دوست بلوچستان سے اٹھی ہے۔ پاکستان سے محبت پر کسی خطے اور کسی سیاسی مکتب فکر کا اجارہ نہیں ہے۔ محمود اچکزئی قوم پرست سیاسی رہنما ہیں اور پاکستان کے دائمی حکمرانوں نے قوم پرست سیاسی فکر پر ہمیشہ سوالیہ نشان لگائے رکھا۔ 1989ء میں مرحوم اکبر بگٹی لاہور آئے تھے تو انہوں نے باغ جناح میں پنجابی رہنماؤں کی طرف رخ کر کے کہا تھا ۔ میں آپ سے پوچھنے آیا ہوں کہ پاکستان کا غدار کون ہے؟ آج ربع صدی بعد محمود اچکزئی نے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی اجاگر کر کے یہی سوال برنگ دگر کیا ہے۔
امن اور محبت کی طرح جمہوریت انسانی زندگی کا روزمرہ ہے۔ جنگ اور نفرت کی طرح آمریت افراد کی سطح پر بدترین جرم اور اجتماعی سطح پر بھیانک حادثہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ حادثہ ایک بار نہیں، چار بار پیش آیا۔ سوال صرف یہ نہیں کہ ایک طالع آزما مٹھی بھر کم سواد ساتھیوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر کے قوم کی توہین کرتا ہے ۔اس حادثے کا اصل نقصان یہ ہے کہ ہر بار اس جرم کے نتیجے میں قوم کو تمدنی ، معاشی اور سیاسی سطح پر ایسے نقصانات اٹھانا پڑے جن کی پیش بینی کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ سیاست ایک پیچیدہ اور نامیاتی عمل ہے، اس ہنر کی تربیت عشروں تک حاصل کرنا پڑتی ہے۔ قوم کی رہنمائی ایسا سادہ معاملہ نہیں کہ اللہ کے کسی نیک اور کھدر پوش بندے کو یہ امانت سونپ دی جائے اور امید رکھی جائے کہ وہ سیاسی تربیت کے بغیر محض اپنے مفروضہ اخلاص کے بل پر قوم کی صحیح رہنمائی کر لے گا۔ ایوب خان نے گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگانے اور نالیوں پر چونا چھڑکنے سے آغاز کیا تھا۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کی رفاقت میں ان بجھا چونا ڈال دیا۔ یحییٰ خان بہت اچھے سپاہی تھے انہوں نے ہمیں نوابزادہ شیر علی خان اور پلٹن میدان ڈھاکہ کے تحفے دیئے۔ ضیاء الحق اپنے اقتدار کے جواز میں افغانستان پہنچ گئے۔ ضیاء الحق کے نقاب پوش جانشینوں نے ہمیں افغانستان کی خانہ جنگی اور جہادی سیاست میں الجھائے رکھا۔ نواز شریف کی منتخب قیادت کو اکتوبر 99ء میں معزول کیا گیا لیکن اس سے چھ ماہ پہلے کارگل کی مہم جوئی کر کے کشمیر کے تنازع میں پاکستان کا اخلاقی وزن ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا گیا تھا۔ آج توانائی کے بحران کی آنچ انہیں بھی محسوس ہوتی ہے جو آئین کو پڑھے لکھے شہری طبقوں کا درد سر سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جو توانائیاں ہمیں بجلی پیدا کرنے اور صنعت کا پہیہ چلانے کے لئے درکار تھیں، انہیں ہم نے وزیرستان اور باجوڑ کے غاروں میں صرف کر دیا ۔ محمود اچکزئی کا اصل سوال یہ ہے کہ لوگوں سے ووٹ لے کر پارلیمینٹ میں پہنچنے والے کیا واقعی یہ سمجھ چکے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں۔ نیز یہ کہ آئین کی غیر مشروط پیروی ہی سے پاکستان کے وفاق کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کے تسلسل ہی سے پاکستان کے گھر روشن اورکھیت زرخیز رکھے جا سکتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی تو اس عہد کا اعادہ چاہتے ہیں جو بے نظیر بھٹو شہید اور محترم نواز شریف نے 14مئی 2006ء کو لندن میں میثاق جمہوریت کی صورت میں کیا تھا۔ میثاق جمہوریت میں یہی اصول طے کیا گیا تھا کہ سیاسی قوتیں کسی غیر جمہوری اقدام کا کبھی حصہ نہیں بنیں گی اور آئین کی عمل داری میں ہر رکاوٹ پر غیر مشروط مزاحمت کی جائے گی۔ 31جولائی 2009ء کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کے 3نومبر 2007ء کے اقدام کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر سیاسی قیادت کے اس تدبر کی توثیق کی تھی۔ حیرت ہے کہ ابھی نومنتخب حکومتوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا اور ایک ادارے سے ایسی آواز آئی ہے کہ اگر فلاں فلاں کام نہ کیا گیا تو منتخب حکومت کی مدت پوری ہونے کی ضمانت نہیں ۔ یہ ضمانت آخر کس نے مانگی ہے؟ جمہوری حکومتوں کی میعاد پوری ہونے کی ضمانت آئین دیتا ہیاور کسی کے پاس کوئی ایسا اختیار ہی نہیں کہ اس سے جمہوریت کے تسلسل کی ضمانت مانگی جائے۔ استدعاصرف یہ ہے کہ اگر خاکم بدہن کبھی ایسا مرحلہ اس قوم کو پیش آئے تو اپنی تار تار آستین سے نظریہٴ ضرورت کا خنجر نکال کر کسی کوآئین سے کھلواڑ کرنے کا اختیار نہیں دیا جانا چاہئے۔ میر ظفراللہ خان جمالی سابق وزیراعظم بھی ہیں اور اپنے تحمل اور بردباری کے لئے بزرگ قومی رہنماؤں میں قابل احترام حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا پارلیمینٹ میں یہ موٴقف اختیار کرنا کہ آئین کے تحت حلف اٹھانے کے بعد مزید کسی اقرار کی ضرورت باقی نہیں رہتی قانونی طور پر تو درست ہو سکتا ہے لیکن چلی کے شاعر پابلو نرودا کو یاد کیجئے۔ اس نے کہا تھا محبت کی زیر زمین جڑوں کو بار بار پانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں پاکستان میں سیاسی قیادت ، آئینی اداروں اور ریاست کے تمام شعبوں میں بار بار یہ اصول دہرانے کی ضرورت ہے کہ آئین میں رکاوٹ ڈالنے کے ناقابل معافی فعل کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں آئین سے انحراف کی ناقابل رشک روایت کی موجودگی میں یہ مشق ازحد ضروری ہے تاکہ ہمارے اجتماعی لاشعور میں یہ اصول مرتسم کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے رکن اعجاز الحق کہتے ہیں کہ آئین کی بالادستی قومی خودمختاری سے مشروط ہے۔ صاحب قومی خودمختاری کا تحفظ آئین ہی کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ آئین قوم کی بنیادی تعریف متعین کرتا ہے۔ آئین پر کلہاڑا چلایا جائے تو ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ قومی خودمختاری کا تعین کرنے کا اختیار صرف ان شہریوں کو حاصل ہے جنہیں لوگوں نے اپنے ووٹ کا اعتماد دے کر پارلیمینٹ میں بھیجا ہے۔ کسی برخود غلط عبقری کو قومی مفاد اور قومی خودمختاری کی خود ساختہ تعریف متعین کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کا آئین ہماری بالادست ترین دستاویز ہے اور آئین کے تحفظ کی ذمہ داری منتخب سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ محمود اچکزئی نے پاکستان کا قابل فخر سپوت ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ پاکستان کی جملہ سیاسی قوتوں کو اس آواز میں آواز ملانی چاہئے۔
تازہ ترین