• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ کے 27روز بعد ہی پارٹیشن آف انڈیا کی انہونی کو ہونی کرنے والے تین بڑے محرکات، قائد اعظم، مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی نتیجہ خیز ابلاغی معاونت میں سے سب سے بڑا مائنس ہو گیا۔قائد اللہ کو پیارے ہوگئے ان کے دست راست قائد ملت لیاقت علی خان نے کسی حد تک خلاپورا کیا لیکن مملکت کو سنبھالنے کے ابتدائی حکومتی اقدامات کرتے کرتے وہ بھی محلاتی سازش کا ہدف بن کر شہادت پا گئے۔یوں نومولود ریاست اپنے قیام کے شاندار پس منظر اور عظیم کامیابی کےساتھ ہی دسیوںلاکھ مہاجرین کی آباد کاری کے چیلنجنگ مرحلے کے دوران ہی سیاسی عدم استحکام میں مبتلا ہو گئی۔ وائے بدنصیبی کہ کتنی ہی عظیم کامیابیوں کے باوجود ہم سیاسی ابتلا سے نہیں نکل پا رہے۔کل عالم میں شاید اتنا بڑا کفران نعمت کہیں نہیں ہو رہا جتنا برکات و ثمرات سے بھری پاک سرزمین پر، اتنا کہ ہم اپنے شہرہ آفاق رواں دواں دریاکے پانی کا، واٹر مینجمنٹ کے آئیڈیل دور میں بھی، 80فیصد بغیر استعمال کےسمندر میں بہا دیتے ہیں نہ آبپاشی کے لئے ذخائر بنائے جاسکتے ہیں اور سستی اور ماحول دوست بجلی بنانے کی تو بات کرنا بھی طاقتور شیطانی اسٹیٹس کو سیاست نے ’’کفر‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اس کی تلخ ترین حقیقت ابلیسی سیاست کے سوا کچھ نہیں ۔اب وزیر اعظم نالاں ہیں کہ سرمایہ کاری کے کتنے ہی ان ہینڈ منصوبوں کے باوجود کراچی کے ساحل سے قریب ترین جزیرے میں صوبائی حکومت ان مجوزہ ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

اب ثابت شدہ ہے کہ اپنے قیام اور اس کے بعد بھی کتنے ہی حوالوں سے خوش قسمت مملکت پاکستان کی بدنصیبی کا پہلو بھی بہت طویل اور بہت واضح ہے ۔جیسے قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کے بعد قومی سیاست ایسی بانجھ ہوئی کہ کوئی کھری عوامی قیادت ہی ملک کے نصیب میں نہ آئی ۔جب کسی اعتبار سے آئی بھی تو وہ ادھوری بھی تھی اور مہلک بھی۔مغربی کی الگ اور مشرقی پاکستان کی الگ، پاکستان کی قومی سیاست میں کوئی ذمہ دار اور اپنے اقتدار سے زیادہ عوام کی فکر کرنے والی مکمل عوامی معیاری قیادت کا مسلسل خلاہی ہے یہی وجہ ہے کہ حصول اقتدار کےلئے یہاں اتحادی سیاست نے بڑی جگہ بنائی ۔جب ایوب خان کے ترقیاتی دور میں اپوزیشن سے کوئی عوامی لیڈر نہ نکل سکا تو ایوبی دور، فرد واحد کے بنائے آئین کےتحت پہلے صدارتی انتخاب میں تمام متضاد الخیال حکومت مخالف جماعتوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا مشترکہ قائد بنا کر ایوبی دور ختم کرنے کی راہ نکالی تھی، واضح رہے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ایوبی جماعت کنونشن مسلم لیگ کی ملک گیر انتخابی مہم کے انچارج تھے ۔الیکشن حربوں اور دھاندلیوں سے پر تھا مشرقی پاکستان اور کراچی و حیدرآباد کو تو نتائج بالکل ہی ہضم نہ ہوئے تھے ۔لیکن ایک مستحکم و متحد اپوزیشن بنی تو اس نے ایوب دور کے زرعی و صنعتی انقلاب کے باوجود ایوب حکومت کو ’’جیت‘‘ کے بعد بھی کمزور کرنا شروع کر دیا اسے وقتی طور پر بڑا سہارا جنگ ستمبر میں پاکستان کے کامیاب ترین دفاع سے تو ملا لیکن دوران جنگ وزیر خارجہ بھٹو نے اپنی بھارت مخالف شعلہ بیانی سےبہت خصوصاً پنجاب اور سرحد میں زبردست عوامی مقبولیت حاصل کی ۔بالآخر روسی کی ثالثی سے پاک بھارت مذاکرات اور معاہدہ تاشقند سے ڈرامائی اختلاف کرکے بھٹو صاحب نے سیاسی مقبولیت کے بڑے اہداف حاصل کئے پاکستانی لیفٹ انہیں ایوبی کابینہ سے نکلتے ہی کیچ کرنے کے لئے تیار بیٹھا تھا، نکلے تو خوب کیا، بھٹو نے لیفٹ اور لیفٹ نے بھٹو کو ایک دوسرے سے بڑھ کر کیش کیا ۔پی پی وجود میں آئی تو بھٹو سچ مچ کے مغربی پاکستان کے عوامی لیڈر بن کر سامنے آئے اور ایوب خاں کے خلاف طلبا کے احتجاجی جلوسوں سے برآمد ہونے والی حکومت مخالف تحریک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن اپنے خلاف اگر تلہ سازش کیس کا سچا (بقول ایس ایم ظفر کے )مقدمہ بھگت رہے تھے اور دوسرے تمام لیڈروں پر حاوی نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کے لیڈر مولانا عبدالمجید بھاشانی مشرقی پاکستان کے غالب سیاسی رہنما تھے ۔تحریک نے زور پکڑا تو ملک گیر سطح پر نوابزادہ نصراللہ اور ہم خیالی رہنمائوں سیاسی رہنمائوں کی کوششوں سے متحدہ پاکستان کا بڑا اور پہلا قومی مزاج کا سیاسی جماعتی اتحاد ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈیک) وجود میں آیا جس نے شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کرا کر ایوب حکومت سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا لیکن بھٹو مغربی سے اور مولانا بھاشانی پاکستان سے ڈیک میں شریک ہوئے نہ انہوں نے حکومت مخالف تحریک روکی، باوجود اس کے کہ ایوب خان نے گھٹنے ٹیک دیئے ماسوائے ون یونٹ نہ توڑنے کے ڈیک کے سب مطالبات تسلیم کر لئے یہاں تک کے آئندہ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔(جاری ہے )

تازہ ترین