• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہلِ دہر نے شاہوں، سرداروں، زرداروں کو مرتے دیکھا ہے،یہ اس امر کااعلان ہے کہ یہ سب جاہ وحشم عارضی ہے لافانی نہیں۔ہماری طرح آپ نے بھی بڑے بڑے اختیارمندوں کو بے آبرواس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا ہوگا۔ بعض تو ایسے تھے کہ جن کے اشارہ آبرو پر لاکھوں گردنیں خم ہوتی تھیں لیکن اُن کے جنازے میں ماسوائے قریبی افراد کے کوئی اور نہیں تھا۔ جن کے جنازے اگرچہ بڑے تھے،لیکن شاید شرکاءکے دل تنگ و تاریک، کہ جہاں جنازے سے محض چند ساعت قبل پہنچے تو دستیاب وقت مرنے والے کے فضائل وخصائل پر گفتگومیں صَرف کرنے کی بجائے سیاسی ،کاروباری یا ذاتی بات چیت میں گزارااور پھر رسمی طورپر جنازے کے بعد اس قدر جلدی میں لوٹ گئے کہ شاید مزید رکناوقت کا زیاں ہو۔اس کی وجہ کیا ہے، محض یہ کہ ان کے جنازے میں بھی ایسے ہی لوگ آئے ہوتے ہیں ، جانے والوں کی طرح جن کی متاعِ دنیا صرف ذات ہوتی ہے۔دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں ،جن کے پاس صاحب ثروت یااہل اختیارکی طرح کوئی اثاثہ نہیں ہوتالیکن وہ خلق خداکی خاطرخود کو یا تو فناکرچکے ہوتے ہیں یااپنا آج مخلوق کےکل کیلئے قربان کرچکے ہوتے ہیں۔ایسے لوگ جو سیاست کو کاروبار نہیں بلکہ اس کے اصل مفہوم یعنی خدمت کے جذبے کے تحت کرتے ہیں ، زندگی میں کوئی نظریہ اپناتے ہیں اور پھر مانندِ جبل اُس پر قائم رہتے ہیں ایسے لوگ کوئی مال واملاک نہ رکھنے کے باوجود کردار وعمل کی ایسی مثال چھوڑ جاتے ہیں جس کو لاکھوں افراد یاد رکھتے ہیں۔گزشتہ ہفتہ ایسی ہی چارشخصیات رخصت ہوئیں۔ان میں خدائی خدمتگارپیر غالب شاہ ، درویش اجمل خٹک کی اہلیہ، اے این پی کراچی کےقاسم جان اور پختونخوا کے صدرالدین مروت شامل ہیں۔چاروں کی زندگی بے لوث خدمت سے عبارت تھی، خدائی خدمتگار اور ضلع کوہاٹ کے سابق صدر پیر غالب شاہ باچا خان اور ولی خان کے دیرینہ ساتھی تھے۔مرحوم نے اپنی زندگی باچاخان کے فلسفے کی ترویج کیلئے وقف کی تھی ، مرتے دم تک وہ اسی فلسفے اور نظرئیے پر کاربند رہے،انکی نماز جنازہ میںپختونخواکے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، عقید ت مندوں نےان کے بلند وبام عزم و استقلال کو یاد کرتے ہوئے رخصت کیا ۔ہمہ جہت اجمل خٹک مرحوم ومغفورکی اہلیہ نے درد وآلام کا طویل دور دیکھا،اجمل خٹک کبھی جلاوطن تو کبھی ٹارچرسیلوں اور زندانوں میں رہے، اگر ان سے جان چھوٹ بھی جاتی تو سیاسی زندگی ایسی فعال تھی کہ گھر سے زیادہ باہر رہتے۔دوسری طرف اہل خانہ کیلئے گزربسرکا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا ،تاریخ شاہد ہے کہ اجمل بابا ایسے عالم میں اس جہاں سے رخصت ہوئے کہ گھر میں فقرنے ڈیرے ڈال رکھے تھے، ایسے وقت میں گھر،بچوں کو سنبھالنااورشوہر کا پشتی بان بنتے ہوئے حالات کا جبربرداشت کرناایک مثالی عورت ہی کاخاصہ ہوتاہے،بلاشبہ مرحومہ نےایک بڑے مقصدکیلئے خودکووقف کرنےوالے درویش اجمل خٹک کوتاعمر یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اُن کے اہلِ خانہ کو پہاڑ جیسے کن مصائب کا سامناہے۔اُن کے جنازےمیں شریک ہر شخص کی آنکھیں اس لئے تر تھیں کہ اُن کے سامنے اس بہادرخاتون کے درد والم کی طویل داستاں تھی۔ براد رقاسم جان سے ہماری رفاقت 40سال پرمحیط رہی، افغانستان میں ثور انقلاب کے بعد جہاں ملک کی سب سے بڑی ترقی پسندوقوم پرست جماعت این ڈی پی دوحصوں میں تقسیم ہوئی وہاں اسکا اثر پختون ایس ایف پر یوں پڑا کہ یہ طلبہ تنظیم بھی تقسیم ہوئی، چنانچہ تنظیمی ڈھانچے کو از سر نواستوارکرنےکی خاطر سندھ میں جو 5رکنی آرگنائزنگ کمیٹی بنی ،اُس میں راحت آفریدی، انجینئرعمرشاہ ،امیرخان کے ساتھ میں اور قاسم جان بھی شامل تھے،اس کے بعد یہ تنظیم وقت کی ایک بڑی تنظیم بن کر اُبھری ،قاسم جان دو مرتبہ اس تنظیم کے صوبائی صدر منتخب ہوئے ، ان کے دونوں ادوارتاریخی تھے،ان کے بعدان کے جانشینوں سعیدخان خلیل اور عبدالرحمٰن خان نے اس روایت کو برقراررکھا۔قاسم جان تحریک بحالی جمہوریت کے دوران کئی مرتبہ جیل گئے،وہ تادم مرگ اے این پی کے نظریات سے جڑے رہے، اُنہوں نے خدائی خدمتگارتحریک پراحمدکاکا کی پشتو تصنیف کا دوجلدوں میں اردومیں ترجمہ کیا،ایک جلدشائع ہوچکی ہے ،دوسری کو شائع کرنے کا اجل نےمرحوم کوموقع نہیں دیا،قاسم جان کے جنازے میں کوئی وزیر و مشیر تونہیں تھا لیکن اس موقع پر ہزاروں وہ لوگ موجود تھے جن کے دلوں پر قاسم جان کی حکمرانی اب بھی قائم ہے۔پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن اور اے این پی پختونخواکے سابق سیکرٹری اطلاعات صدرالدین مروت مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے،جمہوریت کی بحالی کیلئے وہ کیا سختیاں نہیں ہونگی جو برداشت نہ کی ہوں لیکن کبھی اُف تک نہ کی،ہزاروں چاہنے والوں نے انہیں گرفتہ دل کے ساتھ رخصت کیا۔خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ صرف اپنے لئے جیتے ہیں اُن کے اثاثوں میں خدمت خلق کا ایساکوئی اثاثہ موجودنہیں ہوتا جس کی وجہ سے لوگ اُنہیں یاد رکھیں، دوسری طرف نظریاتی لوگ اپنی خدمات اور قربانی کا وہ اثاثہ چھوڑ جاتے ہیں جو تادیراُن کی یاد دلاتا رہتاہے۔

تازہ ترین