• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نوازشریف، صدر آصف علی زرداری اور عمران خان نے لڑائی تو بہت کر لی خصوصاً عمران خان نوازشریف اور آصف زرداری کے بارے میں وہ، وہ باتیں کرتے رہے اور انہیں ایسے ایسے القابات دیتے رہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں سمجھے جا سکتے۔ اب انہیں ایک مثبت انداز میں مقابلہ کرنا ہے اور ان ان علاقوں میں اپنی کارکردگی دکھانی ہے جہاں انہیں11 مئی کو عوامی مینڈیٹ ملا لہٰذا اب ہو گا مقابلہ کارکردگی کا۔ پاکستان کے حالات کافی بہتر ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے اگر یہ حضرات آئندہ 5سال سیاست کو چھوڑیں اور اپنی صلاحیتں دکھائیں۔ اگر وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں پڑے رہے تو نہ تو عوام کی بھلائی ہو گی اور نہ ہی ملک کی کوئی سروس ۔ اب انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اپنے تھنک ٹینکوں کو متحرک کریں اور نئے نئے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آئیں۔ ان کا سب سے بڑا امتحان پچھلی حکومت جس کی کارکردگی کے بارے میں کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے کے مقابلے میں اپنی گورننس میں فرق واضح کرنا ہے جو عوام کو محسوس ہو۔ اب لوگوں کو پتہ چلنا چاہئے کہ یہ نئی حکومتیں ہیں جو پچھلی گئی گزری انتظامیہ سے بہت بہتر ہیں۔
سب سے بڑی ذمہ داری نوازشریف اور شہبازشریف کے کندھوں پر آپڑی ہے۔ انہیں ثابت کرنا ہے کہ وفاق اور پنجاب کی سطح پر ایک واضح انقلاب لارہے ہیں۔ شہبازشریف کے بارے میں تو یہ متفقہ رائے ہے کہ انہوں نے پنجاب میں بہت ہی اچھی گورننس دی ۔ اوپر والی حکومتی سطح پر کرپشن بالکل نہیں تھی مگر ڈسٹرکٹ لیول پر لوٹ مار کسی طرح بھی کم نہیں ہوئی بلکہ مہنگائی کے بڑھنے کی وجہ سے کرپشن میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا لہٰذا اب شہبازشریف کو جس سخت ٹیسٹ کا سامنا ہے وہ ہے ضلع اور تحصیل لیول پر رشوت ستانی کا قلع قمع کرنا کیونکہ عوام الناس کو واسطہ انہی سطحوں پر حکومتی اہلکاروں سے پڑتا ہے۔گزشتہ 5سالوں میں شہبازشریف کی زیادہ توجہ اس قسم کی کرپشن پر نہیں رہی۔ اب انہیں اپنے روایتی جارحانہ انداز میں اس طرف مکمل توجہ مرکوز کرنی ہے۔اگرچہ رشوت ستانی ہماری رگ رگ میں بس چکی ہے مگر شہبازشریف جیسے طاقتور ایڈمنسٹریٹر سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس لعنت کو کم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، بالکل ختم تو نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ شہبازشریف نے بڑے بڑے منصوبے ریکارڈ ٹائم میں مکمل کئے جن سے نہ صرف عوام کیلئے بہت سہولتیں پیدا ہوئیں بلکہ نون لیگ کو کافی سیاسی فائدہ بھی ہوا۔ اس کی 11 مئی کے انتخابات میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ شہبازشریف کی پنجاب میں کارکردگی تھی۔ وفاقی سطح پر نوازشریف کیلئے پہاڑ جیسے بڑے بڑے مسائل ہیں۔ انرجی کرائسس ہے، دہشت گردی ہے، معاشی زبوں حالی ہے، بے شمار نالائق افسران مختلف محکموں میں بھرے ہوئے ہیں، بڑے بڑے ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں جوہر سال 500/ارب روپے وفاقی حکومت سے لے کر زندہ ہیں اور فارن پالیسی کے لئے چیلنج ہیں مگر ان سب بحرانوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نوازشریف کو ثابت کرنا ہے کہ ان کی گورننس گزشتہ حکومت سے بہت مختلف ہے۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ وہ تیسری بار وزیراعظم بن گئے ہیں۔کہاں وہ جیل کی کوٹھڑی میں سزائے موت کے منتظر تھے اور کہاں عوام نے 14سال بعد انہیں وہ پذیرائی دی جو کم ہی سیاستدانوں کو نصیب ہوتی ہے لہٰذا اب ان کے پاس عذر خواہی کی گنجائش نہیں، انہیں ڈیلور کرنا ہے ورنہ وہ تاریخ بن جائیں گے۔
اپنی16سالہ سیاسی زندگی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پہلی بار صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔ اس کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ناتجربہ کاروں کا ایک گروہ ہے جو جذباتی ہیں اور جن میں برداشت بالکل نہیں۔ عمران خان کو عوام نے ”نیا پاکستان “ کا تو مینڈیٹ نہیں دیا تاہم انہیں یہ اختیار کسی حد تک دے دیا کہ وہ ”نیاخیبر پختونخوا “ ضرور بنائیں لہٰذا یہ پی ٹی آئی کیلئے بہت بڑا ٹیسٹ ہے۔ اس کی حکومتی کارکردگی کا مقابلہ نوازشریف اور شہبازشریف کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں سے ہو گا۔ عمران خان کیلئے اب موقع ہے کہ وہ کھیل کے نئے اصول متعارف کرائیں۔ ہاں البتہ پی ٹی آئی کو عوام نے خیبر پختونخوا میں وہ فری ہینڈ نہیں دیا جس طرح کا نوازشریف کو وفاقی سطح اور شہبازشریف کو پنجاب میں دیا ہے ۔ عمران خان وہاں دوسری جماعتوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں لہٰذا اب ان کے مطالبات کو بھی ماننا پڑے گا ورنہ ان کی حکومت ڈانواں ڈول رہے گی۔ اگر پی ٹی آئی یہ مخلوط حکومت کامیابی سے نہ چلا سکی تو یہ اس کیلئے ڈس کریڈٹ ہو گا ۔
اگرچہ کسی بہتری کی توقع تو نہیں کی جاسکتی مگر یہ ہو سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے 11مئی کی تاریخی ہزیمت کو کچھ سنجیدگی سے لیا ہو اور اس بار سندھ میں گڈ گورننس نام کو سامنے رکھ کر حکومت کرنے کا پروگرام بنایا ہو تاہم سندھ میں وہی پرانا سیٹ اپ لایاگیا ہے وہی وزیراعلیٰ، وہی وزراء اور وہی پردے کے پیچھے 2وزرائے اعلیٰ جو صوبائی حکومت چلائیں گے۔ ان سے کسی قسم کی تبدیلی اور بہتری کی قطعاً کوئی امید نہیں مگر مقابلہ تو پھر بھی انہیں نون لیگ کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں اور پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں حکومت سے کرنا ہے۔ ووٹر تو ضرور ان کی کارکردگی کا موازنہ کریں گے۔ پیپلزپارٹی ایک لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اپنی تاریخی بدترین کارکردگی کے باوجود وہ سندھ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اگر یہ اس بار بھی ڈیلور نہ کر سکی تو شاید اگلی بار اسے یہ لگژری میسر نہ ہو سکے ۔ اس بار بھی سندھ نے پیپلزپارٹی کو ووٹ اس کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں دیا بلکہ بھٹوز کی قربانیوں کی وجہ سے اسے کامیابی ہوئی ۔
بلوچستان میں قوم پرستوں کا امتحان ہو گا کہ انہوں نے کس طرح صوبے کے حالات بہت بہتر کرنے ہیں۔ انہیں اقتدار ملا ہے صوبائی اسمبلی میں عددی اکثریت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ نوازشریف نے بڑا دل دکھایا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک جو کہ نہ تو سردار ہیں اور نہ ہی نواب یا میر یا قبائلی چیف بلکہ ایک عام آدمی ہیں جن کا مڈل کلاس سے تعلق ہے کو ڈیلور کرنا ہوگا۔ کرپشن کے لحاظ سے بلوچستان بھی ملک کے باقی حصوں سے کسی طرح پیچھے نہیں رہا۔ گزشتہ 5سالوں میں تو اس نے ساری حدیں کراس کر دیں۔ ڈاکٹر مالک کو دکھانا ہے کہ وہ بلوچستان کے روایتی وزرائے اعلیٰ سے کس طرح مختلف ہیں۔ انہیں ناراض بلوچوں کو بھی صحیح راستے پر لانا ہے۔
تازہ ترین