• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ولی الرحمن کے قتل کی تصدیق تحریک طالبان نے بھی کر دی ہے۔گو میڈیا سے منسلک افراد پہلے دن سے ہی آگاہ تھے مگر تحریک طالبان کی تصدیق یا تردید کے بغیر اسے مصدقہ اطلاع کہنا ممکن نہیں تھا۔ ماضی میں فضل اللہ اور حکیم اللہ محسود کے متعلق اطلاعات غلط ثابت ہو چکی تھیں۔ اس سے پہلے میں امریکی اسٹروکس اور مقتول کے قتل کی اہمیت کو اجاگر کروں، پہلے تھوڑا سا ولی الرحمن کا تعارف کراتا چلوں۔ ولی الرحمن کا تعلق بھی محسود قبائل سے ہے۔ محسود قبائل پشتون ہیں زیادہ تر افغانستان کے صوبوں لوگر، غزنی اور قندوز میں آباد ہیں۔ پاکستان کے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بھی صدیوں پہلے انہی علاقوں سے آ کر آباد ہوئے۔ محسود کی آگے کئی شاخیں ہیں، ولی الرحمن کا تعلق مالخیل سے ہے۔ ولی الرحمن نے فیصل آباد کی جامعہ امدادیہ سے دینی تعلیم مکمل کر کے فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کی، ازاں بعد اپنے علاقے کے ایک مدرسے میں مدرس بن گئے۔2004ء میں پاکستانی فوج نے امریکی دباؤ پر فاٹا میں آپریشن کیا تو ولی الرحمن نے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں جن میں پاکستان نمایاں نظر آتا ہے کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ قبل ازیں عبداللہ محسود بھی پاک امریکہ جنگ کے خلاف برسرپیکار ہو چکا تھا۔ بوسٹن میں جب دو چیچن بھائیوں نے دہشت گردی کی تو صدر اوباما کا سوال تھا حیرت ہے امریکہ میں پیدا ہونے، امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے اور امریکی معاشرے سے تربیت پانے والے بچے مسلم ریڈیکلز سے کیوں متاثر ہو رہے ہیں۔ عبداللہ محسود کا والد پی آئی اے میں سیکورٹی آفیسر تھا، بہنوئی پاکستانی فوج میں کرنل اور بھائی میجر تھا، عبداللہ محسود نے کراچی پشاور جیسے بڑے شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی تھی کسی مدرسے سے نہیں پھر وہ کیوں ریاست کا باغی بنا،ہمیں بھی یہ سوال خود سے کرنا چاہئے۔ عبداللہ محسود افغانستان سے واپس آ رہا تھا، پاکستانی ایجنسیوں کی اطلاع پر گھیرے میں لے لیا گیا۔ عبداللہ نے ہتھیار پھینکنے اور گرفتاری سے انکار کیا اور خود کو ہینڈ گرینیڈ سے اڑا لیا۔ محسود قبائل نے عبداللہ کی موت کو ہیرو کی موت قرار دیا۔ عبداللہ اور بیعت اللہ محسود کے درمیان کبھی بھی ہم آہنگی نہ رہی تھی۔ دونوں میں پرسنلٹی کلیش تھا دونوں ایک دوسرے پر ڈبل کراسنگ کا الزام عائد کرتے رہے ۔عبداللہ24جولائی2007ء کو ہلاک ہوا جس کا سارے محسود قبائل کو قلق تھا۔ دسمبر2007ء کو طالبان کے13گروپس نے پاکستان تحریک طالبان کی بنیاد رکھی جس کے پہلے امیر بیعت اللہ محسود مقررہوئے جس میں ولی الرحمن محسود اور حکیم اللہ محسود نائب امیر اور مجلس شوریٰ کے ممبر مقرر ہوئے۔ عبداللہ محسود کے ساتھی اور عزیز و اقارب کو یقین تھا عبداللہ کی واپسی کی اطلاع پاکستانی ایجنسیوں کو بیعت اللہ محسود نے دی وہ بیعت اللہ کو عبداللہ محسود کا قاتل سمجھتے ہیں۔ بیعت اللہ نے تحریک پر گرفت مضبوط ہوتے ہی عبداللہ کے رشتہ داروں پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا جس کے خلاف قاری زین نے بغاوت کر دی اور اپنے ساتھیوں کو لے کر ڈیرہ اسماعیل خان آ گیا۔ قاری زین کی پشت پر پاکستانی فوج تھی جو تحریک کو تقسیم کر کے کمزور کرنا چاہتی تھی۔ قاری زین کو اس کا معتمد گارڈ قتل کرکے فرار ہو گیا جس کی ذمہ داری ولی الرحمن نے تحریک طالبان کی طرف سے قبول کی۔ قاری زین کو پاکستانی فوج کا ایجنٹ اور طالبان کا دشمن قرار دیا گیا۔ ولی الرحمن نے دعویٰ کیا گارڈ ہمارا آدمی تھا اس نے ہمارے پلان کے مطابق قاری زین کا اعتماد حاصل کیا اور اسے قتل کر دیا۔ بعض ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ گارڈ کی فیملی کو اغوا کرکے بطور پریشر استعمال کیا گیا۔ حقیقت کیا ہے اس طرح کے کیسوں کی نہ تو تفتیش ہوتی ہے نہ ہی سچ سامنے آتا ہے۔ 2009ء میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ اور ولی الرحمن کے درمیان امارت پر جھگڑا اور فائرنگ کی خبروں نے ولی الرحمن کو lime light میں حکیم اللہ کے ساتھ لا کھڑا کیا ۔گو ان خبروں کی تردید ہوتی رہی مگر یہ نا ممکن ہے جہاں کرسی ہو وہاں جھگڑا نہ ہو۔ حکیم اللہ پر ڈرون حملے ہوئے ان کی ہلاکت کی خبریں بھی آئیں ،ان پر ڈرون حملوں کی خفیہ اطلاعات کا شبہ بیرونی ذرائع کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان کے اندرونی لوگوں پر بھی تھا۔ولی الرحمن کے خفیہ ٹھکانے کی خبر کس نے دی یہ شبہ بھی بیرونی ذرائع کے ساتھ ساتھ تحریک کے اندرون خانہ پر بھی رہے گا۔ امریکہ نے اندرون خانہ کی تائید بھی کی ہے مگر تحریک طالبان کے کرتا دھرتا اسے ڈپلومیسی کا رنگ بھی دے سکتے ہیں۔ یہ تھے ولی الرحمن کی زندگی کے اتار چڑھاؤ جو موت کے ساتھ ختم ہو گئے۔ ولی الرحمن پر حملے کا امریکہ کا بڑامقصد پاکستان اور طالبان کے درمیان مذکرات کو سبوتاژ کرنا تھا جو حاصل ہو گیا۔ طالبان مجلس شوریٰ میں پاکستان سے مذاکرات کی سب سے مضبوط آواز ولی الرحمن کی تھی جو اب ہمیشہ کیلئے دب گئی۔ 2012ء میں جنرل پاشا سے مولوی فقیر محمد نے حکیم اللہ سے زبانی اجازت لے کر ابتدائی مذاکرات کئے۔ مولوی فقیر محمد اور دیگر بہت سے فائٹرز کی رائے تھی تحریک طالبان پاکستانی فوج سے مذاکرات کرکے مصالحت کرے اور اپنی تمام جنگی کارروائیوں کا فوکس افغانستان اور امریکی افواج پر فکس کرے، ولی الرحمن بھی اسی موقف کے حامی تھے۔ حکیم اللہ نے فقیر محمد کو زبانی اجازت تو دے دی مگر وہ مذاکرات کے حق میں نہیں تھے لہٰذا انہوں نے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلا کر مولوی فقیر محمد سے باز پُرس کی اور الزام عائد کیا کہ مولوی فقیر محمد نے جنرل پاشا سے مذاکرات مجلس شوریٰ اور امیر کے علم میں لائے بغیر کئے ہیں۔ مولوی فقیر محمد نے اس کی واضح الفاظ میں تردید کی اورکہا انہوں نے امیر کی اجازت سے مذاکرات کئے ہیں مگر حکیم اللہ نے انکار کیا اور مولوی فقیر محمد کو مجلس شوریٰ سے نکال باہر کیا اور ایک فائٹر کے طور پر اپنے معتمد ساتھیوں کی نگرانی میں افغانستان بھیج دیا جہاں وہ پاکستان سمیت امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا، مارچ 2013ء میں پکڑا گیا اور اب افغانستان میں قید ہے۔ ولی الرحمن کے قتل سے مذاکرات کے حامیوں میں کمی آئی ہے اور امریکہ کے پسندیدہ ہارڈ لائنر مضبوط ہوئے ہیں۔ اب امریکہ پاکستان سے کہہ سکے گا ڈرون حملوں میں ہم مولوی نذیر اور قاری گل بہادر جیسے پاکستان کے حامیوں اور امریکہ کے دشمنوں کو ہی قتل نہیں کرتے پاکستان کے دشمنوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب میں ڈرون حملوں کے مخالفین کیلئے ایک اچھا جواز ہے ڈرون سے ولی الرحمن جیسے دہشت گرد بھی مارے جاتے ہیں۔ امریکہ نے ایک گیند پر کئی اسٹروکس کھیل ڈالے ہیں۔ تیسری دنیا امریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کر رہی ہے اور ان کی قربت کو اپنے مسائل کا حل سمجھتی ہے تاریخ میں ہر سپر پاور کا رول اور ردّعمل ایک جیسا رہا ہے۔نہ توسپر پاور کو اپنے مفاد میں استعمال کیا جا سکتاہے اور نہ ہی ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے۔ یہ فلسفہ پاکستان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔
تازہ ترین