• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم پاکستان پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی عوام کیلئے تہنیتی پیغام بھیجا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہارکیا ہے۔ مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کا قیام نہایت ضروری ہے۔ اس بارے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں ایک اہم اور تفصیلی خطاب کیا تھا۔

بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے خوشگوار تعلقات کی خواہش بڑی اچھی بات ہے۔ اس اظہار کے چند اہم پہلو قابل غور ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کا جواب ہے تو یہ صرف جواب الجواب نہیں ہونا چاہئے بلکہ بھارت کو عملی طور پر قدم بھی بڑھانا چاہئے۔ علاوہ ازیں اگر بھارت واقعی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تو تنازعہ کے بنیادی نکتہ کو حل کرنا چاہئے اور وہ نکتہ مسئلہ کشمیر ہے۔

بھارت کو اب سمجھنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف دونوں ملکوں کیلئے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں تنائو اور کشیدگی کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ بھی بعض حل طلب مسائل موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سرحد پر سیز فائر ہونا بہت اہم اور باعث سکون قدم ہے۔

اس میں پاکستان کی عسکری قیادت کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اس سے سرحدکے دونوں طرف رہنے والوں خصوصاً آزاد کشمیر میں سرحدی دیہات کے رہنے والوں کو سکون مل گیا ہے، یہ سیز فائر دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کیلئے نقطہ آغاز ہو سکتا ہے لیکن یہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل تک قائم رہنا نہایت ضروری ہے۔

یہ بات یقینی ہے کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہو جائے تو نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان دیگر مسائل خوش اسلوبی سے طے ہو سکتے ہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں تلخیوں اور عداوت سے پاک ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔

بھارت کو معلوم ہو گا کہ دونوں ملکوں کے لئے تجارت کی کتنی اہمیت ہے۔ بالخصوص بھارت کی معیشت کی بہتری میں پاک بھارت تجارت نہایت اہم اور ضروری ہے۔ اچھے پڑوسی بن کر رہنے میں دونوں ملکوں کے عوام کا بھلا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں دہشت گردی کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ بھی پاکستان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بھارت کو دہشت گردی کے حوالے سے حقائق کو سامنے رکھنا چاہئے۔

بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت اور شواہد نہیں ہیں کہ پاکستان بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں بلواسطہ یا بلا واسطہ دہشت گردی یا اس نوع کی کسی کارروائی میں ملوث رہا ہو۔ پاکستان نے جوڈوزئیر اقوام متحدہ اور دنیا کے اہم ممالک کے سامنے پیش کئے ہیں اس میں وہ تمام تفصیلات وشواہد موجود ہیں کہ بھارت کس طرح پاکستان کے خلاف اقدامات اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

اب اگر بھارت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے تو یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے اور چونکہ ایسی کارروائیاں دوسری طرف سے ہوتی ہیں تو بھارت کو ہی ایسے اقدامات کو روکنا ہو گا۔ اسی طرح اگر بھارت واقعی علاقے میں قیام امن میں سنجیدہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات چاہتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی بھارت کو کرکے دکھانا چاہئے۔

پاک بھارت بہتر تعلقات کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ بھارت افغانستان میں قائم کردہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کو بند کرے، دہشت گردوں کو پاکستان میں کارروائیوں کیلئے بھیجنے اور دہشت گرد عناصر کی مالی معاونت کا سلسلہ بھی ختم کر ے۔

دوسرا اہم کام یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی آٹھ لاکھ فوج کو واپس بلائےاور کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کر ے۔ اس کے علاوہ بے گناہ کشمیری قیادت اور بے گناہ کشمیریوں کوقید سے رہا کر ے۔ یہ نکات نہ تو ناقابل فہم ہیں نہ ہی ناقابل عمل بلکہ یہ نکات خوشگوار تعلقات کے قیام کیلئے مذاکرات میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان اچھے اور بہتر تعلقات کےلئے مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی۔ ان اقدامات سے بھارت کی سنجیدگی بھی ظاہر ہو گی اور مسائل کے حقیقی حل کی طرف اہم پیش رفت بھی تصورکی جائے گی۔

اگر حقیقی جائزہ لیا جائے تو چند شر پسندوں کو چھوڑ کر بھارتی عوام بھی دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے خاتمے اور خوشگوار تعلقات کے حامی ہیں۔ پاکستان نے ہر موقع پر عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ وہ اس خطے کو امن و سکون کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے۔

اس تمام تفصیل کا لب لباب یہ ہے کہ چونکہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوںکے درمیان بنیادی تنازعہ ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر کامسئلہ کشمیریوں کی مرضی سے حل ہو۔ اس لئے بھارت کو اس سلسلہ میںعملی اقدامات اٹھا کر قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

بھارت کی طرف سے بہتر تعلقات کی خواہش کو صرف پاک فوج یا عمران خان کے بغض کی وجہ سے کوئی اور رنگ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ شاید بعض لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ حالات کو اس جگہ تک لانے میں پاکستان کی عسکری قیادت اور موجودہ حکومت نے کتنی کاوشیں کی ہیں اور اس میں کن کن دوست ممالک کا کیا کردار ہے۔

کوئی بھی مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کےبغیر حل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، نہ ہی اس کے بغیر دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار ہو سکتے ہیں۔ پوری قوم کا فرض ہے کہ امن کی کوششوں میں عسکری قیادت اور حکومت پر یقین و اعتماد رکھے اور ان کا ساتھ دے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کی مذمت و حوصلہ شکنی کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین