• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک جملہ اکثرمحفلوں میں سننے کو ملتا ہے، یہی جملہ صحافیوں کا بھی پسندیدہ ہے کہ ’’سفیر تو عیاشیاں کرتے ہیں‘‘... میں آج کل مغربی افریقہ میں ہوں۔ یہاں کی غربت اور وسائل کو دیکھ کر ایک ہی لفظ زبان سے نکلتا ہے کہ طاقتوروں نے ان لوگوں کے ساتھ ظلم کیا۔ افریقی ملکوں میں بکھرے ہوئے پاکستانی سفارت خانوں اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان براعظم افریقہ میں بہت کچھ کر سکتا ہے مگر ہم نے افریقی ملکوں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ ممکن ہے اس کی بڑی وجہ محدود وسائل ہوں ۔ جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ وزارت خارجہ کے پاس بجٹ ہی بہت محدود ہے۔ اس وزارت کے پاس سی ڈی اے سے کم لگ بھگ بیس ارب روپے کا بجٹ ہے، وزارت آبی وسائل کا بجٹ تقریباً 80ارب جبکہ مذہبی امور اور کئی دوسری وزارتوں کے بجٹ کہیں زیادہ ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ دو سو ممالک میں نہیں، صرف 84ملکوں میں کام کر تی ہے۔ ان 84ملکوں میں سفارت خانوں کے علاوہ قونصل خانے ہیں، ان دونوں کی مجموعی تعداد 120بنتی ہے۔ کئی سفارت خانوں کے حصے میں دو دو تین تین ملک آتے ہیں، عملہ بھی کم ہے۔ 84ملکوں میں سے پاکستان کے پاس آدھے ملکوں میں عمارتیں اپنی جبکہ آدھے ملکوں میں سفارت خانہ اور رہائش گاہیں کرائے کی عمارتوں میں ہیں۔ کرائے کی مد میں بہت سا بجٹ غرق ہو جاتا ہے۔ بچت کا کسے خیال؟ وزارت خارجہ چاہے بھی تو یہ بچت نہیںکرسکتی کیونکہ یہاں بھی بہت بڑا رپھڑ ہے کیونکہ اگر کسی ملک میں سفارت خانے کی عمارت بنانا ہو تو یہ فیصلہ وزارت خارجہ اکیلے نہیں بلکہ بین الوزارتی کمیٹی کرتی ہے۔ وزارت خارجہ سفارتخانے بنانے کیلئے کئی مرتبہ تجویزیں پیش کرتی ہے مگر بین الوزارتی کمیٹی ان تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتی ہے۔ بین الوزارتی کمیٹی کو شاید یاد نہیں رہتا کہ اپنا سفارت خانہ بننے سے ملک کا بہت سا پیسہ بچ جاتا ہے۔ اپنی عمارتیں نہ بننےسے وزارت خارجہ کے بجٹ کا بڑا حصہ کرائے کی نذر ہو جاتا ہے، دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وزارت خارجہ جب اپنے سینئر افسران کو خاص کمیشن پر بھیجتی ہے تو ان کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہوتا کہ وہ اچھے ہوٹل کا انتخاب کرسکیں۔ بعض اوقات تو یہ مرحلہ بھی پیش آتا ہے کہ اتنے کم پیسوں میں رہائش اختیار کریں یا کھانا کھائیں۔ یاد رہے کہ وزارت خارجہ ملک کو ریونیو بھی اکٹھا کرکے دیتی ہے۔

دوستو! وزارت خارجہ میں ایک کمال اور بھی ہے۔ یہاں ’’اسکائی لیب‘‘ بہت گرتے ہیں۔ وزارت کے افسران کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ فلا ں سیاسی شخصیت یا کسی دوسرے محکمے کے ریٹائرڈ افسر کو فلاں ملک میں سفیر لگا دیا گیا ہے۔ یہیں سے بدقسمتی کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ ہماری حکومتیں ایسے افراد کو سفیر بنا دیتی ہیں جنہیں سفارت کاری کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ ایک کیریئر ڈپلومیٹ اور ایک نان کیریئر ڈپلومیٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی دوسری مرتبہ اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، انہیں خارجہ امور میں مہارت ہے، انہیں کم از کم یہ سلسلہ تو روکنا چاہیے کہ ناتجربہ کار افراد کو سفیر لگانے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے اور شاید وہ مشہور جملہ بھی ایسے ہی افراد کے لئے بنا ہے کہ ...’’سفیر تو عیاشیاں کرتے ہیں...‘‘

اگر حکومت پاکستان وزارت خارجہ کو موثر بنانا چاہتی ہے تو اس وزارت کے بجٹ کو کم از کم ڈبل کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ سفارت خانوں کے لئے اپنی عمارتیں بنانا ہوں گی، نئے سفارت خانے بھی بنانا ہوں گے کیونکہ دو سو ممالک میں سے 84 ممالک بہت کم ہیں۔ اپنی عمارتیں بنانے سے کرائے کی مد میں خرچ ہونے والے ملین ڈالرز بچ جائیں گے، عمارت پاکستان کی نمائندہ بن جائے گی۔ چھوٹی موٹی تقریبات ہوٹلز کے بجائے اپنی عمارت میں ہو جایا کریں گی، اسی عمارت میں ملکی مصنوعات کا ایک ڈسپلے سنٹر بھی بن جائے گا اور سکیورٹی کے اعتبار سے بھی عمدگی آ جائے گی۔

خواتین و حضرات! حکومت کو وزارت خارجہ میں چار کام اور کرنا ہوں گے۔

1۔ روایتی سفارت کاری کی گنجائش اب نہیں رہی، اب صرف اقتصادی سفارت کاری کرنا ہوگی۔

2۔ وزارت خارجہ کسی بھی ملک کے لئے سفیر مقرر کرتے وقت اسے ٹارگٹ دے، اس کی مرضی کا ٹاسک دے اور پھر چھ مہینے بعد اس سے حساب لے۔ جس کو نہ سمجھ آئے، اسے پاکستانی سفارت کار احمد علی سروہی کی کتاب ’’ اے ہینڈ بک آف اکنامک ڈپلومیسی‘‘ (A HAND BOOK OF ECONOMIC DIPLOMECY) دے دی جائے۔ اس میں لکھا ہے کہ آپ جس ملک میں بھی سفیر ہیں وہاں کی درآمدات میں سے اپنے ملک کے لئے صرف ایک فیصد لے لیں۔ اسی طرح سیاحت کی دنیا میں سے صر ف ایک فیصد سیاح لے لیں۔ مثلاً سوڈان سےدو لاکھ افراد سیاحت کے لئے باہر جاتے ہیں تو آپ دو لاکھ کا صرف ایک ایک فیصد یعنی دو ہزار افراد کا رخ اپنے ملک کی طرف کروا دیں۔ دنیا میں 25 سو ارب کی سیاحت ہوتی ہے، صرف ایک فیصد سے 25 ارب ڈالر آپ کے ملک کی معیشت میں آ جائیں گے۔ اسی طرح دنیا میں تجارت کا حجم سترہ ٹریلین ڈالر ہے۔ صرف ایک فیصد کا رخ موڑنے سے پاکستانی معیشت میں ایک سو ستر ارب کا اضافہ ہو گا۔ آپ ایک ایک ارب کے لئےترستے ہیں صرف دو کاموں میں صرف ایک فیصد سے آپ کی معیشت میں دو سو ارب ڈالر آ جاتے ہیں۔

3۔ وزارت خارجہ کو چاہیے کہ وہ اپنے سفیروں کو ٹرینڈ کرکے بھیجے، ناتجربہ کاری کا دور گزر گیا، عملہ بھی ٹرینڈ ہونا چاہیے۔ سفیر کے لئےحالات سے آگاہی ضروری ہے، سفیر کا ملنسار ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

4۔ مختلف معاہدوں کو انجام تک لے جانے کے لئے تمام وزارتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ وزارت خارجہ سے تعاون کریں۔ خاص طور پر داخلہ، تجارت، اوقاف، آئی ٹی، صحت و تعلیم کی وزارتوں کے علاوہ بورڈ آف انوسٹمنٹ کو تو لازمی پابند کیا جائے۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان کو وزارت خارجہ میں بننے والے اقتصادی سفارت کاری ڈویژن کا حصہ بنا دیا جائے۔ آپ کی ایک وزارت ٹھیک ہو جائے تو آپ کا ملک کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔ بقول سرور ارمان ؎

ہم تو موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح

لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح

تازہ ترین