• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ وہ معاشرہ ہے جہاں اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے گناہ گار آزاد پھرتے ہیں بےگناہ دھر لئے جاتے ہیں۔ معصوم شہریوں کو نت نئے انداز میں کسی بھی واردات میں نامعلوم ملزمان کی فہرست میں شامل کرکے پہلے پھنسایا جاتا ہے پھر ڈرا دھمکا کر خرچہ پانی کے نام پر جان خلاصی کے لئے رقم بٹوری جاتی ہے۔ پڑھا تو یہی ہےکہ کرپشن ایک ناسور ہے، رشوت لینے دینے والے جہنمی ہیں۔کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کی جو قسمیں، وعدے، یقین دہانیاں ہمیں کرائی گئی تھیں، آج وہی اژدھا بنی پھنکار رہی ہیں۔ خانِ اعظم گزشتہ تیس چالیس سال کے جس گند کو صاف کرنے چلے تھے آج یہی گندگی پورے پاکستان میں ایسے پھیلتی نظر آرہی ہے جیسے لاہور کی خوب صورت گلیوں بازاروں میں آج کل مفلوج انتظامی مشینری کے باعث کوڑا کرکٹ تعفن پھیلا رہا ہے۔ سینیٹ انتخاب میں 70کروڑ نے جس طرح قوم کو ماموں بنایا ہے، اس کے گلے میں تحریک انصاف کا سہ رنگا دیکھ کر یہی کہنا مناسب ہے کہ سب اسی رنگ میں رنگے جارہے ہیں اور انہوں نے پیچھے جو ثبوت چھوڑے ہیں قانون و آئین ان مجرموں کو قابلِ گرفت بنانے سے قاصر ہیں۔ جمہوریت کی یہ کمال خوبی ہے کہ اس میں کسی بھی غریب، کسان، مزدور، ہاری یا عام شہری اور سڑک چھاپ سیاسی کارکن کا داخلہ بالکل ممنوع ہے۔ کون بنے گا ارب پتی اسکیم کے تحت باریاں لینے والے چہرے بدل بدل کر آتے جاتے ہیں۔ مفادات کے تابع رشوت لینا دینا گویا اب کوئی بُری بات نہیں رہی۔ اب تو ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ اس آگ میں مجھ سمیت پورا پاکستان جل رہا ہے۔ اس حوالے سے میری کہانی میری زبانی پڑھ لیجئے۔ گزشتہ دنوں ڈیفنس تھانہ اے ڈویژن کے کچھ اہلکار سفید کپڑوں میں ملبوس ایک سول گاڑی میں گھر آئے اور کسی تفتیش کے حوالے سے میرے بھانجے کو تھانے لے کر چلے گئے۔ بھانجے کے بارے میں آگاہ کردوں کہ وہ بیچلرز ان کمپیوٹر سائنسز ہے اور روزگار کی تلاش میں روزانہ کسی نہ کسی ادارے میں انٹرویو دینے جاتا ہے۔ پولیس اہلکاروں نے اصرار کے باوجود کوئی تفصیل نہیں بتائی، نہ کوئی ایف آئی آر دکھائی۔ اسے گاڑی میں بٹھایا اور تھانے لے گئے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق گزشتہ سال ستمبر کی کسی تاریخ کو ڈیفنس کے علاقے میں واقع ایک معروف این جی او کے دفتر میں سال میں چوری کی تیسری واردات ہوئی۔ آخری واردات میں پونے چار لاکھ روپے چرا لئے گئے۔ واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے کہ ایک نامعلوم نوجوان کمرے میں موجود ہے۔ فنگر پرنٹ شواہد کے مطابق نادرا کے ریکارڈ سے چھ ماہ بعد جو رپورٹ آئی اس میں ایک انگوٹھے کا نشان میرے بھانجے سے بھی میچ کر گیا جبکہ باقی بےشمار نشانات ناقابلِ شناخت قرار پائے۔ پولیس اہلکار اس بنیاد پر موبائل لوکیشن حاصل کرکے بھانجے کو تفتیش کے لئے ساتھ لے گئے۔ الزام یہ تھا کہ جس دن واردات ہوئی بچے کا موبائل فون اگلے روز بند ملا، جب موبائل فون کا ڈیٹا چیک کیا گیا تو اس تاریخ کو ان اور آؤٹ گوئنگ کال کی گئی تھی، دو تین گھنٹے سوال جواب کے دوران ہم تفتیشی اہلکار کو یقین دلاتے رہے کہ آپ مکمل اطمینان کر لیں اور آگاہ کیا کہ بچہ جائے وقوعہ والی عمارت میں واقع ایک آفس میں اس روز انٹرویو دینے گیا تھا کیونکہ وہ متعلقہ آفس کی صحیح لوکیشن نہیں جانتا تھا، ہو سکتا ہے وہ واردات والے آفس میں پتہ معلوم کرنے گیا ہو اور شیشے کا دروازہ کھولتے ہوئے اس کا ہاتھ لگنے سے اس کے انگوٹھے کا نشان ظاہر ہو گیا ہو، آپ جس طرح چاہیں اطمینان کر لیں اور اسے گھر جانے دیں اور ایسا کوئی لفظ اس تفتیش میں نہ لکھیں جس سے بچے کا مستقبل تاریک ہو جائے یا اسے کوئی پریشانی آئے۔ تفتیشی اہلکار نے پہلے ہی لمحے کہا کہ مجھے آپ کے چہرے دیکھ کر مکمل اطمینان ہے کہ یہ ساری کارروائی غلط فہمی کی بنیاد پر ہو رہی ہے لیکن پولیس اہلکار گھر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے پھر بیس ہزار روپے نذرانہ دے کر اس تحریری یقین دہانی پر گھر جانے کی اجازت ملی کہ کل پھر پیش ہونا ہوگا اور جائے وقوعہ پر جانا پڑے گا۔ تقریباً ایک ہفتے کے بعد متعلقہ اہلکار جائے وقوعہ پر لے کر گئے، بےگناہی ثابت ہوئی اس کے باوجود متعلقہ اہلکاروں نے جان چھوڑنے کے عوض ایک لاکھ روپے کا تقاضا کر دیا۔ آپ ان اہلکاروں کی دیدہ دلیری اور میری بےبسی پر ہنس رہے ہوں گے لیکن سچ یہ ہے کہ بچے کی بےگناہی ثابت کرنے کے لئے اور اپنی عزت کی قیمت مزید تیس ہزار روپے کی شکل میں ادا کرکے جان چھڑانے میں ہی عافیت جانی۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں رشوت دینا مجھے جہنمی قرار دیتا ہے یا نہیں؟ تمام علماء کرام سے فتویٰ اور رہنمائی بھی درکار ہے۔ اس دورِ ابتلا میں جنگل کے قانون کے تحت جہاں حکمران، منتخب نمائندے، نیچے سے اوپر تک مفادات کے تابع ہوں،رشوت لینے دینے کا چلن عام ہو، ایسے معاشرے میں زندہ رہنے، عزت بچانے، خوف کے سائے میں زندگی گزارنے کی قیمت ادا کرنی پڑے تو کیا یہ سب غربت، بھوک، افلاس، ہوس زدہ ماحول میں شرعی لحاظ سے جائز ہے یا ناجائز؟

تازہ ترین