• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا فنکاروں اور گلوکاروں کے فن سے صرف حکومت محظوظ ہوتی ہے عوام کا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ معاشرے میں خیر اور حسن کے علمبردار ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے خاص بندے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو عطا کردہ صلاحیتیں روحانیت کی شمعیں ہیں جن کی لَو دِلوں اور روحوں میں لطافت پیدا کرتی ہے۔ اِن سے ہی زندگی کی جمالیاتی اقدار کا فروغ ممکن ہوتا ہے۔ وہ مادیت کی دیواروں پر الہامی تصویریں بنا کر شخصیت میں توازن کے لئے کوشاں ہیں۔ لوگوں کی دل جوئی کرتے ہیں، طبیب کا درجہ رکھتے ہیں، ہماری روحوں کا علاج کرتے ہیں، ویران دِلوں میں خوشی کے پھول کھلاتے ہیں،آنکھوں میں بھرے بادلوں کو برسنے پر اُکساتے ہیں، من میں سوئے ہوئے خیر کے جذبے کو جگاتے ہیں۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا ہر فرد اور ہر طبقہ معتبر ہے لیکن موسیقی کی بات کچھ مختلف ہے۔ یہ مکمل طور پر روحانی کارفرمائی ہے۔

ملک میں جہاں کچھ فنکار کروڑوں کما رہے ہیں وہاں کچھ کے پاس کھانے اور دوا کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ ہم اس بات کاگلہ نہیں کرتے کہ کسی کے پاس زیادہ پیسے کیوں ہیں لیکن وہ جنہوں نے نصف صدی اپنی آواز کے سُر سے ہماری فضاؤں کو مہکائے رکھا، وہ جو بیماری کے باعث اب سُر نہیں لگا سکتے صرف آہ بھر سکتے ہیں ان کے لئے ہم کیا کر رہے ہیں؟ ان کے فن سے صرف ریاست لطف اندوز نہیں ہوتی بلکہ ہر فرد محظوظ ہوتا ہے۔ ہم جو بھی چیز خریدتے ہیں اس پر ٹیکس دیتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی ان بڑی ہستیوں کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا ہے؟ ہمارے ہاں کھلاڑیوں کے لئے مختلف بینکوں اور کمپنیوں نے اعزازی سیٹیں رکھی ہیں جہاں سے انہیں ماہانہ تنخواہیں دی جاتی ہیں اور دیگر اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں، یہ بینک گلوکاروں کے لئے ایسا کیوں نہیں کرتے؟ مصوروں کے لیے ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اداکاروں کے لئے ایسا کیوں نہیں کرتے؟ صرف چند چہرے اِنہیں کیوں مطلوب ہیں؟ ہر بڑی کمپنی اور بینک اُن لوگوں کو یاد رکھے جو ہمارے معاشرے کے سفیر رہ چکے ہیں، جنہوں نے اپنےفن سے اس ملک کو سربلند کیا ہے۔ میری گفتگو کا رُخ پھر شوکت علی کی طرف مڑ جاتا ہے جو اس وقت سی ایم ایچ میں زیرِعلاج ہیں اور شدید ترین اذیتوں کا شکار ہیں۔ ان کی ہر آہ ان کے خاندان والوں کے دِل میں بے بسی کا تیر بن کر پیوست ہو رہی ہے۔ وہ پژمردہ اور حیران ہیں کہ ایک عظیم گائیک اس قدر بے سروسامانی کے عالم میں کیوں ہے؟ وہ کیا کریں۔ لوگ دنیا میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن کوئی فنکار جب اتنی محرومیوں کا چہرہ دیکھ کر جائے گا تو اس کا بوجھ پورے معاشرے کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ ہم اجتماعی مسرت اور اجتماعی دکھ کے احساس سے جڑے ہوئے ہیں، ہماری روحوں کا سرچشمہ ایک ہے اس لئے ہمیں وہ دکھ بھی جھیلنے پڑتے ہیں جن میں ہمارا براہِ راست کردار نہیں ہوتا۔ جب بھی ایسے فنکاروں کی حالتِ زار کی بات کی جاتی ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں، جوانی میں انہوں نے بچت کیوں نہیں کی، یہ کیوں نہیں کیا، وہ کیوں نہیں کیا۔ حقیقی فنکار درویش انسان ہوتا ہے، صوفی منش ہوتا ہے، وہ اُس طرح زندگی کے نفع نقصان کو نہیں دیکھتا جس طرح ایک بزنس مین دیکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے اپنے کام سے فرصت نہ ملتی ہو کہ وہ کاروبار کی طرف توجہ دے اور اگر وہ ایسا کرنے لگے تو شاید وہ کبھی فنکار نہ رہ پائے۔ اُس کا تن من، دن رات اپنے سُروں کے درمیان گزرے تو اس میں برکت آتی ہے۔ بہرحال جب کوئی بیمار ہو، لاچار ہو تو پھر یہ سوال نہیں بنتے۔ شوکت علی نے زندگی میں جو کمایا وہ عیاشیوں میں نہیں لٹایا۔ وہ تمام لوگ جو موسیقی سے محبت کرتے ہیں، معاشرے کو خوبصورت بنانا چاہتے ہیں، جنہوں نے شوکت علی کی آواز میں سیف الملوک سن کر روحوں کو تازگی بخشی ہے ، غلام رسول عالمپوری کا کلام سن کر یوسف زلیخا کی داستان کی حقیقت جانی ہے، شاہ حسین اور بلھے شاہ کو سنا، لہو کو گرمانے اور وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنےوالے ترانے سنے ہیں ان سب پر لازم ہے کہ وہ قرض ادا کریں جو شوکت علی نے اپنے سُروں کی صورت اُن پر لازم کر دیا ہے۔ صاحبِ استطاعت لوگ بھی سوچیں اور سفید پوش بھی، ہم سب کا فرض ہے۔ دوسروں کی طرف نہ دیکھئے نہ نصیحت کیجئے کہ فلاں ادارہ یہ کرے گا فلاں وہ کرے گا، آپ خود ابتدا کیجئے یہ سوچ کر کہ آپ مدد نہیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں، سیلوٹ کر رہے ہیں اس شوکت علی کو جس نے زندگی بھر ہمیں سُروں کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔

تازہ ترین