• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ کے روز وفاقی کابینہ نے اپنے جس اجلاس میں آئندہ مالی سال 2016-17ء کے قومی بجٹ کے ابتدائی خدوخال اور آئندہ تین برسوں کی میزانیاتی حکمت عملی کی منظوری دی اس میں غریب اور متوسط طبقے کی دلچسپی کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کی یہ ہدایت خاص اہمیت کی حامل ہے کہ عام آدمی پر بوچھ نہ ڈالا جائے۔ ماضی میں ہمارے پالیسی سازوں کی نظر سے یہ نکتہ بظاہر پوشیدہ رہا ہے کہ ملک میں غیرملکی ایجنٹوں کو سازگار ماحول ملنے اور دہشت گردی و انتہا پسندی کا عفریت پروان چڑھانے کا ایک سبب تقسیم دولت کا وہ غیرمنصفانہ نظام بھی ہے جس میں ایک طبقے کو ٹیکسوں کی چھوٹ سمیت ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں اور دوسرے طبقے کے لئے زندگی اتنی دشوار بنادی گئی ہے کہ پورے پورے گائوں کی آبادی اپنی اہم ضروریات کے لئے گردے بیچنے پر مجبور ہوگئی، کئی مائوں کو بچوں پر ’’برائے فروخت‘‘ کا لیبل لگانا پڑا، کئی مجبور خاندانوں کو اجتماعی خودکشی کا راستہ اختیار کرنا پڑا اور سستا آٹا ملنے کی آس میں تپتے سوج تلے گھنٹوں قطار میں کھڑے ہونے والے کئی عمر رسیدہ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ گزشتہ برسوں میں رونما ہونے والے مذکورہ المناک واقعات سے وزیر اعظم نواز شریف یقیناً لاعلم نہیں رہے ہیں اسی لئے انہوں نے مئی 2013ء کے انتخابات میں اپنی پارٹی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے بعد سب سے پہلے ملکی معیشت میں بہتری لانے پر توجہ دی جس کے لئے اس وقت کے منظرنامے میں کچھ سخت فیصلے بھی ناگزیر تھے۔ مگر اب جبکہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے اور موڈیز جیسی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موجودہ حکومت کی مالیاتی کارکردگی کو مثبت قرار دے رہی ہے اور آئندہ سال کے اختتام تک توانائی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجانے کی امید ہے تو اس مثبت کارکردگی کے ثمرات عوام تک پہنچائے جانے چاہئیں۔ غریب اور متوسط یہ محسوس کرتا ہے کہ وزیر اعظم نے عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالنے کی ہدایت کی ہے، تو اس کا مطلب حقیقتاً ان لوگوں کو ریلیف دینا ہے جن کے لئے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہوچکا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 4.4 ٹریلین روپے کے لگ بھگ حجم کے اس بجٹ کے بارے میں تفصیلات بتائیں جسے 3؍جون کو پیش کیا جانا ہے۔ مروجہ میزانیوں کی طرح یہ بھی اعداد و شمار کا مجموعہ ہے مگر عام فہم انداز میں اس کے بعض نکات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ سماجی تحفظ کے پروگرام، نوجوانوں کی بہبود کے اقدامات، کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبوں، تخفیف غربت اور معیشت کے دیگر شعبوں پر خاص توجہ دی جائے گی۔ 3سالہ میڈیم بجٹری فریم ورک کی موجودگی سے مستقبل کی ایک متعین راہ پر چلنا نسبتاً آسان ہوجائے گا۔ جبکہ امیر طبقے کو حاصل 100؍ارب روپے ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز صاحب ثروت طبقے سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے کے رجحان کی نشاندہی کررہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نان فائلرز کو پراپرٹی کی خرید و فروخت پر 2فی صد ٹیکس دینا ہوگا اور سالانہ 50؍کروڑ روپے سے زائد کمانے والوں پر سپر ٹیکس لگے گا۔ یہ سپر ٹیکس شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی بحالی پر خرچ ہوگا۔ مہنگائی کی شرح 5فیصد اور مالیاتی خسارہ 4.3فیصد تک رکھنے ، معاشی ترقی کی شرح 5فیصد تک لانے جیسے اہداف اگر حاصل ہوگئے تو عام آدمی کی مشکلات کم ہونے کی توقعات ہیں۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر بڑی حد تک عملدرآمد کیا گیا ۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کی 0.6فیصد کی مجوزہ شرح گھٹانے کی ضرورت ہے تاکہ بینکوں میں پیسہ رکھنے کی حوصلہ افزائی ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اگر بہت سے ملکوں کی طرح ٹیکس امیروں سے وصول کرکے غریبوں پر خرچ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی تو کئی ایسے مسائل کے حل میں مدد ملے گی جو ماضی کی غلط پالیسی کا شاخسانہ ہیں۔ موجودہ حکومت اگر غریبوں کو ریلیف دینے میں کامیاب رہی تو عوام کی نظر میں اس کا مقام ومرتبہ بلند ہوگا اور تاریخ اسے اچھے نام سے یاد کر ے گی۔
تازہ ترین