• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کا رزلٹ آ چکا تھا۔ پی ایم ایل (این) ہر طرف ”ہونجا“ پھیر چکی تھی۔ جیتنے والوں نے دیگوں کے منہ بند کر دیئے تھے اور اپنے ڈیروں پر محفلیں جمانا چھوڑ دی تھیں۔ اب وہ اپنے سپورٹروں سے گلے ملنے کی بجائے صرف ہاتھ ملانے پر اکتفا کر رہے تھے۔ اس ماحول میں شاہد ریاض گوندل نے منڈی بہاء الدین سے مجھے فون کیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے اعزاز میں ایک بڑا کھانا دے رہے ہیں۔ میرے علاوہ منڈی بہاء الدین والوں کی بھی شدید خواہش ہے کہ آپ اس کھانے میں بطور مہمانِ خصوصی شامل ہوں۔ میں نے سوچا جلسوں کے مہمانِ خصوصی تو ہوتے ہیں، یہ کھانے کے مہمانِ خصوصی کی ”بدعت“ کیسے شروع ہو گئی۔ میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک ممکنہ جواب یہ تھا کہ کھانے کے مہمانِ خصوصی کے لئے انہیں شاید کسی ایسے مہمان کی تلاش ہو جو دیگیں کی دیگیں چٹ کر جانے کی شہرت رکھتا ہو مگر میں نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ میں یہ شرط پوری کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ایک آدھ دیگ چٹ کر جانے کی بات ہوتی تو میں مہمانِ خصوصی کے لئے شاید کوالیفائی کر سکتا تھا مگر یہاں تو دیگ کی نہیں دیگوں کی بات ہو رہی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ کھانے کے مہمانِ خصوصی تو دراصل وہ ووٹر ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا اور یوں مجھے کس خوشی میں مہمانِ خصوصی کا اعزاز دیا جا رہا ہے؟ تب میں نے سوچا کہ انسانی جسم میں بعض حصے محض شو،شا کے لئے ہوتے ہیں مثلاً سر کے بال وغیرہ کیونکہ ان کے بغیر بھی کام چلایا جا سکتا ہے مگر یہ شو،شا کے کام آتے ہیں۔ سو مجھے لگا کہ مجھے بھی محض شو ،شا کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ بلانے والا شاید ریاض گوندل تھا جس کا کہا میں ٹال نہیں سکتا تھا، چنانچہ جانا پڑا۔
یہ شاہد ریاض گوندل کون ہے؟ آپ سمجھ رہے ہوں گے یہ ویسا ہی ہو گا جیسے گوندل ہوتے ہیں۔ آپ صحیح سوچ رہے ہیں، اس میں گوندلوں کا ”جٹکا“ لب و لہجہ بھی موجود ہے، اگر کسی کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے تو پھر پیچھے نہیں ہٹے گا لیکن اس سے ہٹ کر وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، شائستہ طور اطوار کا مالک، یورپ میں رہنے کے باوجود دیسی کلچر اور روایات کا امین بھی ہے۔ اس ہینڈ سم نوجوان پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی نظر پڑی تو انہیں اندازہ ہو گیا یہ ان نوجوانوں میں سے ہے جن کی انہیں تلاش رہتی ہے چنانچہ ان کا اندازہ صحیح ثابت ہوا، شاہد ریاض گوندل نے برلن میں چوٹی کے سرمایہ کاروں کو جمع کیا اور شہباز شریف کو برلن آنے کی دعوت دی اور شہباز شریف وہاں سے کامیاب لوٹے۔ اب انرجی کے حصول کے لئے بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، صرف یہی نہیں شاہد ریاض گوندل پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پاکستان کے استحکام اور ترقی کی علامت سمجھتا ہے ۔ چنانچہ وہ برلن میں اپنے بزنس کو خیرباد کہہ کر الیکشن سے کئی ہفتے پہلے پاکستان چلا آیا اور اپنے آبائی شہر منڈی بہاء الدین میں اس نے نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی جو اسی کی طرح مسلم لیگ کو پاکستان کے لئے بہترین چوائس سمجھتی تھی۔ اس ٹیم کے نوجوانوں نے شہر میں کنویسنگ کا ایسا سماں باندھا کہ پانسہ پلٹ گیا اور مسلم لیگ کے امیدوار بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ شاہد ریاض گوندل انہی نوجوانوں کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے اعزاز میں ایک بڑا عشائیہ دے رہا تھا۔
اب ایک عجیب و غریب واقعہ بھی سن لیں، میں لاہور سے اپنی گاڑی پر منڈی بہاء الدین کے لئے روانہ ہوا تو جب منڈی سے ابھی تیس کلو میٹر دور تھا، میں نے دیکھا کہ بیسیوں کاروں نے سڑک روک رکھی ہے۔ ان کے ساتھ ایک ٹرک بھی ہے جس پر نوجوان سوار ہیں۔ میرے ساتھ اس سفر پر آنے والے عزیر احمد نے جب یہ صورتحال دیکھی تو کہا گاڑی واپس کر لیں، آگے کچھ ہنگامہ ہو رہا ہے کیونکہ پولیس کی ایک گاڑی بھی کھڑی ہے۔ میں ابھی ڈرائیور کو گاڑی موڑنے کے لئے کہنے والا ہی تھا کہ ان گاڑیوں میں سے بہت سے نوجوان اترے اور میری گاڑی کی طرف بھاگتے ہوئے آئے، تب پتہ چلا کہ یہ قافلہ تو میرے استقبال کے لئے یہاں ”خیمہ زن“ تھا۔ سو سب سے آگے پولیس کی ایک گاڑی اسکاڈ کر رہی تھی، اس کے پیچھے پھولوں سے لدا ایک ٹرک تھا، ٹرک کے پیچھے میری کار تھی جس پر ٹرک سے مسلسل پھول برسائے جا رہے تھے اور میرے پیچھے گاڑیوں کا قافلہ تھا۔ مجھے لگا میں پطرس بخاری کے مضمون کا کردار یعنی ”مرید پور کا پیر“ ہوں جس کے بارے میں گوندل نے مبالغہ آمیز تعریفیں کر کے ان معززین کو میرا گرویدہ بنا دیا تھا۔ اللہ کرے یہ نیک لوگ میرے بارے میں ہمیشہ اسی غلط فہمی کا شکار رہیں کہ انہوں نے جو عزت مجھے دی تھی ، میں واقعی اس کا مستحق تھا۔
یہ ایک میرج ہال تھا جس کے بینکوئٹ ہال میں سات سو کارکنوں کے عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسٹیج پر ممتاز تارڑ ایسے خاندانی مسلم لیگی بھی موجود تھے۔ ناصر بسال تھے جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر معززین شہر کے ساتھ دو بہت خاص لوگ بھی بیٹھے نظر آئے۔ ایک بی بی حمیدہ تھیں جو جنرل الیکشن میں کامیاب ہوئی ہیں، ان کی مقبولیت دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ منڈی بہاء الدین میں انہیں ایک باکردار سیاستدان اور اعلیٰ درجے کی صفات کی حامل خاتون سمجھا جاتا ہے۔ وہ میاں وحید الدین کی صاحبزادی ہیں اور انہوں نے منڈی کے لوگوں کی خدمت کے لئے دن رات ایک کر دیئے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب کی کابینہ خواہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو، میاں شہباز شریف اس بی بی کو وزیر ضرور بنائیں۔ میاں صاحب کام کے حوالے سے اگر ”میل جن“ ہیں تو یہ ”فی میل جن“ ہے۔ یہ خاتون مسلم لیگ کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو گی۔ اس کی صلاحیتوں سے فائدہ ضرور اٹھایا جانا چاہئے۔ اسٹیج پر بیٹھے خاص لوگوں میں ایک نوجوان چودھری ظفر اقبال گوندل بھی تھا جس کے ساتھ یہ شدید زیادتی کی گئی کہ اسے ٹکٹ دے کر واپس لے لیا گیا۔ میں اس نوجوان کی صلاحیتوں کا چشم دید گواہ ہوں، اس نے بہت کم عرصے میں منڈی بہاء الدین کے لوگوں کا دل جیت لیا تھا اور اگر ٹکٹ اس کے پاس رہتی تو اس نے بہت بڑی لیڈ کے ساتھ کامیاب ہونا تھا۔ اب میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کسی نہ کسی صورت میں ضرور کریں۔
باقی رہا یہ کہ میں نے اپنی تقریر میں کیا کہا اور معززین شہر کی تقریروں کا نچوڑ کیا تھا تو یہ سب کی سب مسلم لیگ (ن) کی آمد کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں امید کی ترجمان تھیں۔ امید، جو قوموں کو زندگی بخشتی ہے، مایوسی، جو قوموں کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔ مجھے یقین ہے پاکستانی عوام نے مسلم لیگ کی قیادت سے جو امیدیں وابستہ کی ہیں وہ پوری ہوں گی اور ایک خوبصورت پاکستان ہم سب کا مقدر بنے گا!
تازہ ترین