• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگری نگری پھرنے والے مسافر کو سفر کے نتیجے میں ایک نہایت قیمتی شے ملتی ہے، نئے دوست، نئے احباب، نئے آشنا۔ کہاں اور کس گوشے میں کیسے کیسے لوگ چھپے بیٹھے ہیں، یہ وہی لوگ جانتے ہیں جو سفر اختیار کرتے ہیں اور نئے نئے مقامات کو جانے کی زحمت اٹھاتے ہیں۔
مجھے کچھ روز ہوئے انگلستان کے شہر بریڈ فورڈ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہی بریڈفورڈ جسے چھوٹا پاکستان کہا جاتا ہے۔ وہی بریڈفورڈ جہاں انگریزی کے پہلو بہ پہلو اردو اور پنجابی بولی جاتی ہے، مشاعرے ہوتے ہیں، راگ راگنیوں کی محفلیں سجتی ہیں اور دن کا آغازحلوے پوری کے ناشتے سے ہوتا ہے، جہاں ڈائل اے روٹی کا نظام چل نکلا ہے یعنی ٹیلیفون کیجئے، ذرا دیر بعد ایک موٹر سائیکل سوار آپ کے گھر پر گرم نان، بریانی، قورمہ اور مٹی کے پیالوں میں جمی کھیر پہنچا جاتا ہے۔ اسی طرح شہر میں ایک چھوٹی سے کار دوڑتی دیکھی جس پرلکھا تھا، حلوہ پوری۔اس بریڈفورڈ میں بہت سے نئے پرانے احباب ملے۔ صباحت عاصم واسطی جیسے پرانے دوست جن سے برسوں بعد ملاقات ہوئی کیونکہ وہ انگلستان چھوڑ کر خلیج کی ریاستوں میں جا بسے ہیں۔ وہیں ڈاکٹر سلیم خان پہلی بار ملے جن کا تعلق اگرچہ ممبئی سے ہے لیکن وہ بھی دبئی میں آباد ہیں اور سیکڑوں سخن فہم خواتین اور حضرات کے برعکس ، جو خواب بھی غزل کی صورت دیکھتے ہوں گے، وہ اردو نثر لکھتے ہیں۔سلیم خان اپنا تازہ ناول ’زرپرست،سر پرست‘ لے کرآئے تھے جس کی رسمِ اجرا بریڈفورڈکے ایک ہوٹل کے بڑے ہال میں ہوئی۔ اس رسم اور اس کے بعد مشاعرے اور محفل موسیقی کا اہتمام یارک شائر ادبی فورم نے کیا تھا جسے علاقے کے ادب پسند لوگوں نے مل کر بڑی چاہ سے قائم کیا ہے اور جس نے کچھ ہی دن پہلے اردو کے سرکردہ کہانی کار انتظار حسین کے ساتھ شام منائی تھی۔ غرض یہ کہ اس علاقے والوں نے برطانیہ کے اس سرسبز و شاداب علاقے میں اردو کے گل و گلزار کھلا رکھے ہیں۔ اس تقریب میں شعر پڑھنے اور شعر سننے والے بہت سے احباب جمع تھے جنہیں میں کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتا کیونکہ اس مجمع کو ذرا قریب جاکر دیکھا جائے تو یہ بھید کھلتا ہے کہ اس میں بڑے بڑے صاحبان کمال چھپے ہوئے ہیں۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، سادہ سے، کم گو سے، نہ ان پر کوئی کیفیت طاری، نہ ان کے گرد کوئی اسرارحلقہ کئے ہوئے۔ بس جیسے دوسرے لوگ تھے ویسے ہی وہ بھی تھے۔ نام تھا ان کا ڈاکٹر خالد محمود ضیاء اور کمال تھا ان کا یہ کہ انسان کے اعصاب کو لمحہ بھر میں ناکارہ بنادینے والے بھیانک امراض کے وہ عالمی شہرت کے ماہر معالج تھے۔
میں نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ جیسے جیسے علاج معالجے کی سائنس ترقّی کر رہی ہے، ویسے ویسے نئی نئی بیماریاں بھی سر ابھار رہی ہیں۔ یہ بدن کو ذرا دیر میں مفلوج کر دینے والا مرض پتہ نہیں کب سے ہماری زندگیوں میں چلا آیا ہے لیکن یہ پتہ ہے کہ اس کا علاج نایاب تھا۔ ہمارے لندن کے دوست حافظ مسرور احمد کچھ عرصہ ہوا چھٹیاں گزارنے مراکش گئے۔ تیسر ے ہی دن لوٹ آئے بلکہ اٹھا کر لائے گئے کیونکہ وہاں ان کے بدن میں بے شمار جراثیم نہیں بلکہ تنہا ایک جرثومہ داخل ہوا جو خون میں تیرتا ہوا دماغ تک جا پہنچا اور جس ایک ذرا سے کیڑے نے ان کے سارے بدن پر فالج جیسا حملہ کر دیا۔ حافظ مسرور کو بتایا گیا کہ مراکش میں اعصابی نظام کو تباہ کرنے والے جراثیم تو موجود ہیں مگر اس کا علاج موجود نہیں۔ اس پر انہیں راتوں رات لندن لایا گیا۔ کئی روز نہیں، کئی ہفتے ان کا علاج کیا گیا۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ ہوش میں ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے بہت عرصہ پہئے والی کرسی پر گزاریں گے۔
ڈاکٹر خالد محمود ضیاء سے ملاقات میں انکشاف ہوا کہ یہ بیماری پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اور خصوصاً آزاد کشمیر میں عام ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک جرثومہ پیر کے ناخن میں داخل ہوجائے تو دیکھتے دیکھتے سر تک پہنچ جاتا ہے، مریض بے سدھ ہوجاتا ہے اور عزیز و اقارب دفن کفن کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ایسے میں قدرت نے سرزمین پاکستان پر ڈاکٹر خالد محمود ضیاء کی شکل میں ایک فرشتہ اُتارا۔ انہوں نے اس مرض اور اس کے علاج کے تمام معاملوں کو اچھی طرح سمجھ لیا اور طے کیا کہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی لوگوں کو مرنے سے بچایا جائے۔ یہ کام آسان نہ تھا۔ یہ علاج گولیوں، مکسچروں اور انجکشنوں سے نہیں ہوتا۔ اس کیلئے مریض کے بدن سے خون نکالا جاتا ہے۔ خون میں سب جانتے ہیں کہ کئی طرح کے خلئے ہوتے ہیں۔یہ خلئے جس پانی جیسے مادّے میں تیرتے ہیں اسے پلازما کہا جاتا ہے۔ مریض کے خون سے پلازما الگ کرکے اس کی جگہ صحت مند خون کا پلازما داخل کیا جاتا ہے اور اسے مریض کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی سمجھ میں نہ آیا ہو تو حیران نہ ہوں، میں بھی بس اِتنا ہی سمجھ پایا ہوں۔
تو یہ سارا عمل بہت خاص مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود ضیاء ان مشینوں اور ان کے استعمال کے ماہر ہیں، اتنے ماہر کہ مشینوں کے بعض پرزے برائے نام رقم خرچ کرکے ملک کے اندر بنا لیتے ہیں۔ انہوں نے دوسرا بڑا کام یہ کیا ہے کہ ملک کے کم سے کم آٹھ جدید اسپتالوں میں اعصاب سے متعلق شعبوں میں خصوصی مرکز قائم کر دےئے ہیں۔ ڈاکٹروں کو تربیت دے دی ہے جو ہر وقت تیار رہتے ہیں کیونکہ اس مرض کی زد میں آنے والے کے لئے لازمی ہے کہ جلد سے جلد اس کا علاج شروع کر دیا جائے۔ یہ نظام چل نکلا ہے اور لوگ صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔ اسی نظام کے ذریعے خون میں شامل ہونے والے دوسرے جراثیم مثلاً ڈینگی بخار کے جراثیم کو بھی اسی طرح الگ کر سکتے ہیں جس طرح دودھ کو متھ کر مکھن الگ کردیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غریبوں کے لئے یہ علاج بالکل مفت ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس علاج میں اتنی مہارت حاصل کرلی ہے کہ انہیں دنیا بھر میں بلایا جاتا ہے۔ ان کے لیکچر ہوتے ہیں اور ان سے مشورے لئے جاتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ لندن کے اسپتال حافظ مسرور کو پوری طرح صحت یاب نہ کرسکے۔ کہنے لگے کہ یہاں بھی بعض سہولتیں ابھی تک حاصل نہیں ۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ برطانیہ کے صحتِ عامّہ کے نظام این ایچ ایس کی سرکردہ خواتین پاکستان جا کر ان کی تنظیم پی ایم ڈبلیو او کے کام کا جائزہ لے رہی ہیں اور ان کی لگن اورجدوجہد سے متاثر ہو کر دیہی علاقوں میں مراکزِ صحت قائم کرنے کے منصوبے بنارہی ہیں خاص طور پر گاؤں دیہات کی خواتین کے لئے جو ان ولایتی مہمانوں کے لئے اپنے صاف ستھرے، لِپے پُتے گھروں کے دروازے کھول دیتی ہیں اور اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی گھریلو مصنوعات کے تحفے پیش کرتی ہیں۔
بریڈفورڈ کی محفلِ موسیقی کے بعد ہوٹل میں قیام کے لئے مجھے اور ڈاکٹر خالد محمود کو ایک ہی کمرہ ملا۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا تعلق پاکستان کے کس علاقے سے ہے؟ انہوں نے بتایاکہ وہ ضلع گجرات کے ایک گاؤں کے باشندے ہیں۔ میرے ذہن میں پرانی یادوں کے دیے جل اٹھے۔ میں نے بتایا کہ سنہ 1965ء کی جنگ چھڑنے سے چند روز پہلے میں اپنے اخبار کی رپورٹنگ کی غرض سے اسی علاقے کے گاؤں اعوان شریف گیا تھا۔ کہنے لگے کہ آپ ضرور میرے گاؤں سے گزرے ہوں گے۔ میں نے کہا کہ علاقے میں میرے رہنما ایک نوجوان وکیل اصغر علی گھرال تھے۔کہنے لگے کہ وہ تو میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ میں نے کہا کہ وہ رات میں نے ان کے گاؤں گھرال میں گزاری تھی۔ کہنے لگے کہ میں اس گاؤں کے چپے چپے سے واقف ہوں۔پوچھا کہ دالان میں سوئے تھے یا چھت پر؟ میں نے بتایا کہ اعوان شریف سے پیدل چلتے ہوئے ہم گھرال گئے تو کھیتوں کے درمیان دور کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے راہ گیر ایک دوسرے سے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے ان کے بیچ ایک دو ہاتھ کا فاصلہ ہو۔ سوچئے کہ علاقے میں کتنی خاموشی ہوگی۔ مجھے گاؤں کے آنگن میں سلایا گیا تو اُس رات آسمان پر میں نے لاکھوں ستارے دیکھے۔ اپنے علاقے کی باتیں سن کر ڈاکٹر صاحب کھل اُٹھے۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھا ڈاکٹر صاحب ، اُن دنوں آپ کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے۔ کہنے لگے، میں اپنے گاؤں میں تھا اورچلنا سیکھ رہا تھا۔ اُس وقت میں صرف ایک سال کا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کی پشت پر پڑی جھُرّیوں کو دیکھا۔کافی تھیں مگر یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ لاکھوں ستاروں سے کم تھیں۔
تازہ ترین