• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا دوست ایک امیر آدمی ہے،کئی فیکٹریوں کا مالک ہے، وہ روزانہ اِن فیکٹریوں کا دورہ کرتا ہے ، اپنی امارت کا حساب لگاتا ہے اور پہلے سے زیادہ دولت مند ہو کر گھر لوٹتا ہے ۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ شاہ خرچ نہیںہوتے مگر بوٹا بالکل بھی کنجوس نہیں ۔ جی ہاں ،اُس کا نام بوٹا ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اتنے امیر کبیر آدمی کا نام بوٹا بہت عجیب ہے مگرمجھے بالکل عجیب نہیں لگتا کیونکہ جس وقت سے میں بوٹے کو جانتا ہوں اُس وقت وہ سرتا پا ’بوٹا‘ تھا۔ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے ۔ایک صاحب کا نام ’علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواری ‘ہے ،خدا کو جان دینی ہے کسی کلکاریاں مارتے بچے کا یہ نام نہیں رکھا جا سکتا مگر اِن کا رکھا گیا۔خیر چھوڑیے،میں بتا رہا تھا کہ بوٹے کو ﷲ نے ایک سخی دل سے نوازا ہے ،کوئی شخص اُس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے وہ کچھ نہ کچھ دے کر ہی رخصت کرتا ہے ،کئی رفاہی ادارے اُس کے مالی تعاون سے چل رہے ہیں اور یوں اُس کا شما ر شہر کے مخیر حضرات میں ہوتا ہے۔یقیناً وہ ایک درد مند انسان کی طرح غریبوں کی مدد کرتا ہے مگر بوٹے کے دل میں بہر حال نمود و نمائش کی بھی خواہش ہے ۔اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس کی نیکی کی تشہیر ہواور لوگ اُس کی سخاوت کے گُن گائیں ۔میری اکثر اِس موضوع پر بوٹے سے بات ہوتی ہے مگرمیں بوٹے کواِس تشہیر سے منع نہیں کرتا، مجھے لگتا ہے کہ اگر بوٹا نیکی کرکے دریا میں نہیں ڈالنا چاہتا تو اُس کی مرضی ،کم از کم وہ نیکی تو کر رہا ہے، ویسے بھی ہر شخص سے پارسائی کے اعلیٰ ترین درجے کی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔

کچھ عرصے سے میں بوٹے میں ایک تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔اب وہ اپنی نیکی اور سخاوت کی تشہیر میں اتنی زیادہ دلچسپی نہیں لیتا جتنی پہلے لیتا تھا۔میں نے اپنی اِس رائے کا اظہار بوٹے سے کیا تو وہ بہت خوش ہوا ۔بوٹے کو ہمیشہ یہ بات مسرت دیتی ہے کہ دنیا میں لوگ اُس کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ میری بات کے جواب میں بوٹے نے انکشاف کیا کہ کچھ عرصے سے اُس نے غریبوں کی مدد کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے، وہ روزانہ صبح اپنے بینک سے کچھ روپے نکلواتا ہے اور کسی نا معلوم منزل کی جانب چل پڑتا ہے ،راستے میں اسے جو شخص بھی ضرورت مند نظر آتا ہے بوٹا اُس کی مدد کرتا ہے ، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جس شخص کی اُس نے مدد کی وہ حیرا ن پریشان ہو گیا کیونکہ وہ شخص سخت مشکل میں تھا اور کہیں سے بھی مدد کی امید نہیں تھی،بوٹے کی مدد اُس شخص کے لیے گویا ایک غیبی امداد ثابت ہوئی ۔اسی طرح ایک دن بوٹا جس راستے پرنکلا وہ اسے کچی بستی کی طرف لے گیا،وہاں اُس نے دو بچیوں کی شادی کے لیے پیسے دیے ،اُن بچیوں کا والد معذور تھا،اسے جب پتا چلا کہ ایک نا معلوم ’فرشتہ ‘اُس کی مدد کے لیے پہنچا ہے تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بوٹے کے قدموں میں گرگیا۔بوٹے نے مجھے بتایا کہ یہ واقعات اب معمول بن چکے ہیں اور اسے یقین ہو گیا ہے کہ قدرت اُس کے ذریعے اِن غریبوں کی مدد کر وا رہی ہے۔ بوٹے کو کسی نے بتایا ہے کہ یہ قدرت کا نظام ہے جس میں اسے ایک خاص کردار ملا ہے اور وہ خوش قسمت ہے جو اِس نظام میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے ۔میں نے بوٹے کی باتیں تحمل سے سنیں مگر اپنی عادت کے برخلاف خاموش رہا ۔ میں نے سوچا کہ اگر کوئی شخص کسی بھی جذبے کے تحت معاشرے میں غریبوں کی مدد کر رہا ہے تو اِس میں کیا حرج ہے!بوٹا اگر خود کو قدرت کے نظام کا کوئی اہم پرزہ سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ،اِس سے نیکی ہی جنم لے رہی ہے ، برائی تو نہیں۔ مگر پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔

بوٹے نے مجھے بتایا کہ ایک روز اسی طر ح وہ صبح ایک نئے مگر نا معلوم راستے پر جا رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر ایک بارہ چودہ سال کے بچے پر پڑی جو سڑک کے کنارے بیٹھا جوتے پالش کر رہا تھا۔ ’’نہ جانے کیوں میرے قدم خود بخود اُس بچے کی جانب اٹھ گئے ۔گو کہ میرے جوتے صاف تھے مگر پھر بھی میں نے اسے پالش کرنے کے لیے دے دیے۔ اتنے میں دو نوجوان جو موٹر سائیکل پر سوار تھے ، میرے پاس آئے ، ان میں سے ایک نے میرے پہلو میں پستول کی نال رکھی اور کہا کہ جو کچھ ہے نکال دو۔ میں نے چپ چاپ تمام روپے نکال کر اُن کے حوالے کر دیے ۔ انہوں نے جلدی جلدی روپے اپنی جیبوں میں ٹھونسے اورموٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔‘‘ بوٹے کو اِس بات کا ملال تھا کہ وہ تو قدرت کے بنائے ہوئے سسٹم کے عین مطابق چل رہا تھا پھر اُس کے ساتھ یہ ڈکیتی کی واردات کیوں ہو گئی ، کیا اُس نے اپنا کردار بخوبی نہیں نبھایا، کیا غریبوں کی مدد میں اُس سے کوئی کوتاہی ہو گئی جس کی اسے یہ سزا دی گئی ؟میںنے بوٹے کو تسلی دی کہ قدرت کے جس سسٹم کی تم بات کر رہے ہو وہ صرف تمہارے اپنے ذہن کی اختراع تھی، ایسا کوئی نظام قدرت نے وضع نہیں کیا جس میں تمہیں کوئی اہم پوزیشن سونپی گئی ہو یا جس کے تحت تم نے یہ سمجھ لیا ہو کہ تم بہت نیک ہو اِس لیے نادیدہ قوتیں تمہار ی رہنمائی کریں گے ۔ہر شخص کو اپنے بارے میں یہی غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ بہت اہم ہے ۔تم اُن ڈاکوؤں سے پوچھو گے تو شاید وہ بھی تمہیں یہی بتائیں گے کہ آج انہوں نے ایک نئے اور نا معلوم راستے کا انتخاب کیا اور صبح ہی کامیابی نے قدم چوم لیے حالانکہ یہ سب اتفاقات کا کھیل ہے۔ اِس کائنات میں اربوں انسان بستے ہیں اور وہ اربوں انسان روزانہ صبح کھربوں کام کرنے نکلتے ہیں ، ایسے میں کسی کو تم جیسا کوئی نیک اور سخی مل جاتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔خود کو اہم سمجھنا چھوڑ دو اورغریبوں کی مدد اسی طرح کرتے رہو جیسے پہلے کرتے تھے۔ویسے میری اِس تقریر کا بوٹے پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ بوٹا اب بھی اجنبی بن کر مسکینوں کی مدد کرتا ہے مگر اب اُس کے ساتھ دو گن مین بھی ہوتے ہیں۔

تازہ ترین