• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی آپ ان مغالطوں کے بار ے میں سوچئے ، جو حضرتِ انساں نے اپنے بارے میں قائم کر رکھے ہیں تو آپ مسکرا اٹھیں گے۔وہ تو پہلے زمانوں کا انسان تھا، جس کا کہنا تھا کہ (انسان کے اس پر براجمان ہونے کی وجہ سے )کرّہ ارض کائنا ت کا محور و مرکز ہے۔وہ دور تو گزر گیا ۔ ہمارے عہد میں بھی ایک سائنسدان گزرا ہے ،اسٹیفن ہاکنگ۔وہ سر سے پائوں تک مفلوج تھا۔ ایک انگلی بھی ہلانہیں سکتا تھا ۔ اسے خطاب دیا گیا ’’ ماسٹر آف یونیورس۔‘‘ کوئی شک نہیں کہ اپنے عہد میں وہ کائنات کو سب سے زیادہ سمجھتا تھا لیکن ماسٹر آف یونیورس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کے امور آپ کے حکم سے طے پاتے ہوں ۔ سورج آپ کے حکم سے سوا آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کہکشاں کے گرد گھوم رہا ہے اورکہکشاں آپ ہی کے اذن سے 21لاکھ ساٹھ ہزار کلومیٹر کی رفتار سے بھاگ رہی ہے ۔پھر یہ کہ اگر آپ ماضی کے بڑے دماغوں کا کام نکال دیں تو عہدِ حاضر کے سائنسدان دھڑام سے نیچے آگریں۔ اگر صرف نیوٹن کی دی ہوئی پیمائشیں نکال دی جائیں تو ماہرینِ فلکیات جنگل میں کھوئے ہوئے بچّے کی مانند ہوں گے ۔

سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ سات ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے سورج کا طواف کرتی ہوئی اس زمین پر جب ایک انسان پیدا ہوتاہے تو کس قدر وہ آزاد ہوتاہے اور کتنا مجبور؟ پیدائش کے پہلے چند برسوں میں، انسان مکمل طور پر ماں باپ کے رحم و کرم پر ہوتاہے۔اپنی پسند کے والدین منتخب کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے گھر پیدا ہو اور ہو سکتاہے کہ ایک خانہ بدوش کے ہاں۔ ہو سکتاہے کہ آپ کسی بھکاری خاندان میں پیدا ہو جاتے ۔ بچپن ہی سے آپ کو صدا لگانی سکھائی جاتی۔ آپ اسکول جانے ، سچ بولنے، ایثار کرنے اور دیگر اعلیٰ انسانی قدروں کی بجائے جذباتی استحصال کرناسیکھتے۔ایک چھوٹے سے بچّے کے ماں باپ اگر مستقل طور پر آپس میں دست و گریبان رہتے ہوں اور وہ خوف زدہ ہو کر انہیں دیکھتے رہنے پر مجبور ہو تو اس کا اس میں کیا قصور ؟ ہو سکتاہے کہ ایک بچّہ پیدائشی طور پر ذہین ہو اور ہو سکتاہے کہ وہ موٹے دماغ کا ہو۔انسان اپنے ماں باپ کی طرح اپنے بہن بھائیوں کا انتخاب بھی خود نہیں کرتا، جو اس کی پوری زندگی پہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔بچّہ اپنا ماحول منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کس اسکول میں کون سے بچّے اس کے ہم جماعت ہوں گے ، اس کا انتخاب بھی اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ یہ ساتھی طلبہ اس کی نفسیات پر ، اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔

انسان بہت سی بیماریاں وراثت میں لیتا ہے۔ یہ بیماری بال جھڑنے، جلد کے مسائل سے لے کر موٹاپے اوربڑی خوفناک بیماریوں تک کچھ بھی ہو سکتی ہے۔مسلسل کئی نسلوں تک خاندان کے اندر زیادہ شادیاں کرنے کے نتیجے میں کچھ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک نامی گرامی بیوروکریٹ نے ایک بار بتایا کہ کزن میرج کی وجہ سے میری بیٹی ذہنی طور پر معذور پیدا ہوئی۔ میں نے دنیا بھر میں اس کا علاج کرانے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی علاج ہے ہی نہیں۔فرض کریں، آپ کے پاس سب کچھ ہے ۔ اچھی صورت، اچھی ملازمت،اچھی صحت اور اچھا دماغ لیکن آپ کے ہاں ایک معذور بچّہ پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی بدل کے رہ جائے گی ۔ انسان اس صورتِ حال میں بھلا کیا کر سکتا ہے ۔

انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں۔ مٹی کے نیچے بیج کو وہ پھاڑ نہیں سکتا ۔ پودے کو وہ آکسیجن پیدا کرنے سے روک نہیں سکتا۔ زمین کے نیچے لوہا اس نے نہیں چھپایا۔لکڑی کو جلنا اس نے نہیں سکھایا ۔ اجرامِ فلکی کواس نے نہیں دوڑایا ۔ زمین کو اس نے نہیں گھمایا کہ رات اور دن بدلتے رہیں ۔ انسان تو صرف خدا کی طرف سے طے کردہ فیصلوں سے گزرتا رہتا ہے۔ خود ہی انسان کو پیدا کیا۔ خود ہی اس کے دل میں خواہش پیدا کی۔ خود ہی اسے خواہش کی پیروی سے منع کیا۔ خود ہی زمین پر اتارا، خود ہی واپس جانے کی امید دلائی۔ خود ہی آدم ؑ کے دل پر توبہ نازل کی۔

ہاں، اگر انسان کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے تو وہ درست انتخاب ہے۔ انسان کو ہمیشہ دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ جو حالات زندگی میں انسان کو پیش آتے ہیں، ان کا انتخاب کرنے کا حق اسے نہیں لیکن اسے اپنا طرزِ عمل (Behaviour) طے کرنے کا حق حاصل ہے۔اسی طرزِ عمل پر خدا ہماری کارکردگی کی جانچ کرتا ہے۔اسی طرزِ عمل کی بنیاد پر ہمارے نمبر درج ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی چیز ہمارے بس میں نہیں۔ حتیٰ کہ خیالات بھی انسان خود پیدا نہیں کرتا بلکہ خدا کہتاہے، ’’ اور اس (نفس) پر بدکاری اور پرہیز گاری (میں نے) الہام کی۔‘‘ یہ اچھے اور برے رجحانات، برائی کی طرف کشش، یہ بھی خدا کی طرف سے ہماری آزمائش کے لیے باقاعدہ نازل کی جاتی ہے ۔

ہمیں دومیں سے ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔ انسان کے بس میں فقط یہی ہے۔رہی ماسٹر آف یونیورس ہونے کی بات تو یہ ایک بچگانہ بات ہے۔ کوئی انسان ماسٹر آف یونیورس تو کیا ماسٹر آف ارتھ بھی نہیں ہو سکتا ورنہ یہ سارے چھوٹے بڑے ماسٹر مل کر برف پگھلنے اور سمندری پانی میں اضافے کو نہ روک لیتے؟

تازہ ترین