• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شور برپا ہےکہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے کہنے پر نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔ احباب کو پتہ نہیں جنوبی پنجاب سے کیا مسئلہ ہے،اس کے مسائل حل کرنے پر بیورو کریسی تیار ہی نہیں۔ جب جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنایا گیا تو اس میں بیس کے قریب محکموں کے ایڈیشنل سیکرٹری ایڈیشنل آئی جی اور دیگر افسروں کی تقرریاں کی گئیں مگر کچھ عرصہ کے بعد سات سیکرٹریز کو واپس بلا لیا گیا کہ ان کےلئے ابھی قانون سازی نہیں کی گئی۔ حیرت ہے کہ جب سیکرٹریٹ بنانے کی قانون سازی کی گئی تھی تو اس میں یہ محکمے کیوں چھوڑ دئیے گئے تھے اور اگر چھوڑ دئیے گئے تو سیکریٹری تعینات کس قانون سے ہوئے تھے۔ بیورو کریسی نے اس سلسلے کو مذاق کیوں بنا رکھا ہے۔ ان محکموں کے رولز آف پروسیجر کیوں نہیں بنائے گئے۔ یقیناً وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس بات پر باز پرس کی کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔سات محکمے فعال ہونے سے پہلے کیسے ختم ہو گئے۔ انہیں اپنے طریقہ کار سے بیورو کریسی نے مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں ہوئے۔ پولیس کے محکمے کی کارگردگی بہتر بنانے کےلئے وہاں کنٹریکٹ پر کسی کو لگانے کے بارے میں سوچا گیا تو اس میں غلط کیا ہے، اچھے ریٹائرڈ افسران کی دوبارہ تعینانی ہمارے نظام کا حصہ ہے۔ اگر جنوبی پنجاب میں ایک اچھے افسر کی دوبارہ تعیناتی کیلئے کچھ ہوا تو شور ہونے لگا، پھراُس اچھے افسر کو بزدار صاحب کا چچا بنا دیا گیا۔ عثمان بزدار کے والد کے دو بھائی اسلم خان بزدار اور خالد خان بزدار تھے ۔ ان میں سے اسلم خان بزدار ان کے سسر بھی ہیں ۔

عثمان بزدار ، بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے دوست اور تہذیبی محقق سعید بزدار کے بقول پنجاب میں کوہ سلمان کےدامن پاورتی میں ایک لاکھ کے قریب بزدار آباد ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں تقریباً یہ قبیلہ چار لاکھ لوگوں کا قبیلہ ہے، چونکہ عثمان بزدار کے والد اس قبیلے کے سردار تھے اور ان کے بعد اب عثمان بزدار سردار ہیں‘ اس حوالے سے تو اس قبیلے کا ہر شخص ان کا رشتہ دار ہے جہاں تک وستی بزدار کےرہنے والے امیر تیمور کا تعلق ہے تو وہ عثمان کا چچا نہیں رشتہ دار ضرور ہے۔ امیر تیمور آصف بزدار جو ایک سی ایس پی افسر ہیں‘ ان کے سگے بھائی ہیں اور ایک دیانت دار افسر رہے ہیں۔

یہ خبر بھی آج بہت گردش کر رہی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے فارغ کردیا گیا ۔یہ بھی بالکل غلط بات ہے۔ پھر کسی نےاس بات کی تفصیل نہیں بیان کی کہ ڈاکٹر طارق بنوری کے خلاف کتنی زیادہ شکایات تھیں، وہ گزشتہ تین سال سے ایڈہاک بنیادوں پر ایچ ای سی چلا رہے تھے، نہ تو میرٹ پر مستقل ای ڈی تعینات کیا گیا نہ ہی ریجنل ڈائریکٹرز تعینات ہوئے۔ بھاری تنخواہوں پر درجن بھر کنسلٹنٹ بھرتی کیے گئے تھے جن میں بعض نہ صرف ریٹائرڈ بلکہ تعلیمی لحاظ سے گریجویٹ تھے۔ حال ہی میں نیب نے بھی ڈاکٹر طارق بنوری کے خلاف بد عنوانیوں، بےقاعدگیوں، بدانتظامی اور کنسلٹنٹس کی تعیناتی پر تحقیقات شروع کر رکھی تھیں۔ چند دن پہلے کابینہ نے ایچ ای سی کے چیئرمین کی مدتِ ملازمت چار سے دو سال کر دی تھی۔ اس سلسلے میں کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی نے باقاعدہ آرڈیننس منظور کیا ۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ انہیں وقت سے پہلے فارغ کردیا گیا، درست نہیں۔ سوال یہ تو ہے کہ حکومت نےاڑھائی سال تک انہیں فارغ کیوں نہیں کیا اور بدعنوانیاں ہونے دیں اس کا جواب وزیر تعلیم شفقت محمود کو دینا چاہئے ۔اطلاعات یہی ہیں کہ شفقت محمود بھی تبدیلی کے مراحل ہیں ، عمران خان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ ایجوکیشن کے معاملات میں توقع کے مطابق بہتری نہیں ہوسکی۔

اس خبر نے بھی مجھے اپنی طرف متوجہ کیا کہ مریم اورنگ زیب نے فرمایاہے ’’ندیم بابر کو عہدے سے ہٹانا نہیں بلکہ جیل میں ڈالنا چاہیے تھا۔‘‘ تواس حوالے سے عرض ہے کہ وزیر اعظم نے انکوائری کے آرڈرز کئے ہیں اور سیکرٹری پٹرولیم اور مشیر پٹرولیم دونوں کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے کہ یہ لوگ انکوائری پر اثر انداز نہ ہوں ۔ اپوزیشن کو چاہئے تھا کہ وہ اس بات کی وزیر اعظم کو داد دیتی مگر مریم اورنگ زیب نے الٹایہ عجیب و غریب مطالبہ کیا کہ انکوائری سے پہلے ندیم بابر کو جیل بھیج دیا جائے۔ جیل بھیجنے کے لئے سیکرٹری پٹرولیم کا نام نہیں لیا حالانکہ قانونی طور پر جواب دہ وفاقی سیکرٹری ہیں۔ پھر اسد عمر نے واضح الفاظ میں بیان دیا ہے کہ ’’جو بھی شریک جرم تھا اس کیلئے ہتھکڑی اور جیل ہے‘‘ممکن ہے انکوائری کے بعد پتہ چلے کہ ندیم بابر بالکل بے قصور ہیں اور سارا قصور سیکرٹری پٹرولیم کا ہے یا اس کے نیچے موجود بیورو کریسی کا ہے۔

آخر میں ایک اور اہم ترین بات۔ تمام غیر ملکی میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے خلاف بڑے بڑے فیچر شائع کئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام جو غیر ملکی میڈیا کے بقول آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جا رہا ہے وہ پاکستان کےلئے بہتر نہیں تو وہ میڈیا آئی ایم ایف کے خلاف کیوں کوئی بات نہیں کرتا جس نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختار ادارہ بنا دیں۔ میرے خیال کے مطابق اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ آنے والی کوئی حکومت پاکستان کو معاشی ترقی کے اُس راستے سے ہٹا نہیں سکے گی جس پر ملک کو عمران خا ن نے ڈال دیا ہے۔

تازہ ترین