• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افسردہ کہانی شروع ہوتی ہے ستمبر 1948ء کو جب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح شدید علیل اور زیارت کوئٹہ میں مقیم تھے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ قائداعظم کو کراچی منتقل کیا جائے جہاں ان کا بہتر علاج ہو سکے گا۔11ستمبر کو قائد کو لیکر طیارہ روانہ ہوا تو ان کے ہمراہ مادر ملت فاطمہ جناح اور ایک نرس بھی تھیں، طیارے کی منزل کراچی کے مغرب میں ماڑی پور ایئرپورٹ تھی۔محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق طیارہ لینڈ ہوا تو دو چیزیں میں نے شدت سے نوٹ کیں کہ ایک تو قائداعظم کو ریسیو کرنے کیلئے کوئی سرکاری آدمی ایئرپورٹ پر موجود نہیں تھا، وزیراعظم لیاقت علی خان، وزیر داخلہ یا چیف سیکرٹری بھی نہیں یہاں تک کہ پولیس کا کوئی اعلیٰ و ادنیٰ افسر تک بھی نہیں، وہاں صرف ایک شخص تھا وہ قائد کا ملٹری سیکرٹری کرنل جیوری نولز جو اس وقت تک سمجھا جاتا تھا کہ ڈائریکٹ لاڈ مائونٹ بیٹن کو رپورٹ کرتا ہے۔ فاطمہ جناح بتاتی ہیں کہ ماڑی پور سے جو سڑک گورنر جنرل ہائوس تک جاتی ہے یہ بھی کلیئر نہیں تھی بلکہ چھکڑوں، اونٹوں، بیل اور دیگر مویشیوں سے بھری ہوئی تھی، ملٹری ایمبولنس اور ایک کیڈلک کار روانہ ہوئی تو بار بار رش کی وجہ سے ہمیں رکنا پڑتا تھا کیونکہ ایمبولنس اور کار پر جھنڈا تک نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی راستہ نہیں دے رہا تھا ہم کوئی چار ہی میل تک چلے ہوں گے کہ ایمبولنس اچانک رک گئی ڈرائیور نے بتایا پٹرول ختم ہو چکا ہے، میں نے سوچا جس نے بھی یہ دونوں گاڑیاں بھجوائی ہیں اس نے کیڈلک میں تو پٹرول ڈلوا دیا ایمبولنس کا پٹرول کیوں چیک نہیں کیا ؟ ایمبولنس کراچی کی ریفیوجی کالونی کے پاس کھڑی تھی گرمی اور حبس سے ہمارا برا حال تھا مکھیاں اور مچھر قائد کے منہ پر بھنبھنا رہے تھے اور میں اپنے پلو سے انہیں ہٹانے اور قائدکو ہوا دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک گھنٹے بعد دوسری ایمبولنس آئی لیکن اس پر بھی جھنڈا نہیں تھا اور نہ ہی ساتھ کانوائے تھا تاکہ ہم تیزی سے گورنر ہائوس پہنچ جائیں۔ ہم گورنر ہائوس پہنچ تو گئے لیکن افسوس یہ بابائے قوم محمد علی جناح کی آخری شام تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کی یہ باتیں مکمل حقائق نہیں پھر ڈسکریشن پاور رکھنے والے قوم کو کھل کر بتائیں کہ اصل بات کیا ہے اور یہ بھی آشکار کیا جائے کہ محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’’مائی برادر‘‘کو بین کیوں کیا گیا اور کس کے حکم پر۔

پاکستان میں پچھلی اور آنے والی نسلوں کو بھی بہت سے ان تاریخی حقائق سے قصداً دور رکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک شفافیت سے کوئی بات ہم اپنی ہی تاریخ اور اس کے مشاہیر سے متعلق نہیں کر سکتے مثلاً ہمیں یہ تو پتا ہے کہ راولپنڈی سازش کیس کیا ہے لیکن یہ علم نہیں کہ اس مقدمہ کے 12،14ملزموں جن میں فوجی بھی تھے اور سویلین بھی ان سے حیدرآباد جیل کورٹ میں کیا تفتیش یا عدالتی کارروائی ہوئی۔ہماری نظروں سے آج تک مخفی ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کو کس نے قتل کروایا گولی تو سعد اکبر ببرک نے چلائی لیکن قتل کی اس سازش کے پس پردہ کون تھا ہم نے کبھی یہ تفتیش بھی نہیں کی کہ کس کے حکم پر قاتل کو زندہ پکڑنے کی بجائے موقع پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، کیا یہ حکم امریکہ کا تھا، روس کا یا پھر اس کے پیچھے بھارت تھا اور اگر اس کے تانے بانے ملک کے اندر موجود تھے تو انہیں سامنے کیوں نہیں لایا گیا۔ ضیاء الحق کا طیارہ کریش ہوا تو وہ کون تھا جس نے طیارے میں دھماکہ خیز مواد پلانٹ کیا تھا اصل وجہ کیا تھی یہ آج تک عوام کو نہیں بتائی گئی بلکہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک درجنوں ایسے فضائی حادثات ہوئے ہیں جن کی وجوہات کبھی سامنے نہیں لائی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کروایا اور وہ کون تھا جس کے حکم پر حادثے کی جگہ تفتیش سے پہلے ہی دھلوا دی گئی حالانکہ محترمہ تو اپنی شہادت سے عرصہ پہلے ہی اس ضمن میں کئی ملکی شخصیات پر انگلی اٹھا چکی تھیں لیکن قاتل آج بھی مفروضات پر مبنی ہیں۔ 26دسمبر 1971ء کوحمودالرحمان کمیشن بنا اگرچہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ تیار ہوئی لیکن پاکستان کے عوام کیلئے یہ آج بھی صیغہ راز ہے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟بتایا جاتا ہے کہ یہ رپورٹ خاصی ضخیم تھی اور اس کی بارہ جلدیں شروع میں ہی غائب یا ضائع کر دی گئیں۔ بعدازاں 2000ء میں اس کے بعض مندرجات بھارت اور پاکستان کے اخبارات میں’’لیک‘‘ ہوئے، لہٰذا کیا پاکستان کے عوام کا یہ بنیادی حق نہیں کہ انہیں پتا چلے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بن گیا؟

تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی جو روایت قائداعظم کی رحلت کے بعد وجود میں آئی وہی 73سال گزر جانے کے بعد آج بھی پوری شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد، سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین کے مابین مقدمہ کی اصل روداد، چیف کورٹ کے فیصلے اور پھر فیڈرل کورٹ میں اس فیصلے کو رد کرکے جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کی جو بنیاد ڈالی اسے بھی مکمل طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ قوم کو بتایا جائے جسٹس منیر گورنر جنرل سے ملا ہوا تھا جس بنا پر اس نے ساز باز کی اور پاکستان کی عدالتی تاریخ کو آج تک داغدار کرنے کا باعث بنا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بعدازاں کئی مواقع پر جسٹس منیر نے تسلیم کیا کہ میں نے یہ فیصلہ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کیا تھا لیکن جسٹس منیر کو نہیں پتا کہ اس ایک فیصلہ نے پاکستان میں آئینی اداروں کی پامالی کی ایسی بنیاد ڈال دی جس کے زہر آلود ثمرات پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلہ میں بھی بعدازاں اس پینل کے ایک جج نسیم حسن شاہ نے برملا تسلیم کیا کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ غلط تھا کیونکہ ہم (جج) اداروں سے مغلوب و خوفزدہ تھے اس لئے یہ فیصلہ دینے کیلئے مجبور تھے،یہی تسلسل آج بھی جاری ہے۔ نواز شریف کیس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک جس نے پانامہ کیس میں نواز شریف کو اقامہ میں نااہل قرار دیا لیکن دو سال بعد ایک ویڈیو میں اعتراف کیا کہ مجھ پر دبائو تھا کہ نواز شریف کو سزا دینی ہے۔ ہماری تاریخ کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا گیا ہے کہ قوم کے اندر اب سچ جاننے کی خواہش ہی دم توڑ چکی ہے ورنہ حکمرانوں اور دیگر اداروں سے یہ سوال نہ ہو کہ پرانی تاریخ بھی درست کرو اور حالیہ تاریخ کو بھی بے پردہ کرو۔قوم کو بتائو کہ بلین ٹری، سونامی کیس، فارن فنڈنگ کیس، ہیلی کاپٹر کیس، بی آر ٹی ، مالم جبہ، علیم خان کے کرپشن کیس، جہانگیر ترین کے کیس، خورشید شاہ، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، آصف علی زرداری، فریال تالپور اور شریف فیملی پر کھرب ہا روپے کی کرپشن کیسز کا عوام کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔الٹا قومی خزانے سے مزید اربوں روپے ان کیسز پر خرچ کئے جا رہے ہیں قوم کو یہ بھی بتائیں وہ ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ اور وہ ’’ڈیم فنڈ‘‘ کی رقوم کدھر ہیں جس کا چندہ آج بھی بعض تنظیموں کے اکائونٹس میں جا رہا ہے آخر کچھ تو شفافیت کے ساتھ بتائیں اور کچھ نہیں تو اس قوم اور ملک کے عوام کا یہ حق تو بنتا ہے کہ انہیں اپنے رہبر کی موت کی حقیقت کا علم تو ہوسکے اور بعض اسٹیٹس کو ٹوٹ سکیں۔

تازہ ترین