• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
املتاس کی بھینی بھینی پھیلتی خوشبو اور موسم میں جب ملک کے تاریک سیاسی منظرنامے پر نظر پڑے تو یوں لگے کہ پو پھٹ رہی ہے۔ عشروں سے کرپشن اور دوہرے قانون کی دلدل میں پھنسے اور اب لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں سورج کی پہلی کرنیں جھانک رہی ہیں۔ ملک میں نظام بد جاری تو ہے لیکن صاف لگ رہا ہے اسے تشکیل دینے والے اور اس کے مزے لوٹنے والے تبدیلی کے دباؤ میں آچکے۔ عوام کے استحصال مسلسل لامحدود اغراض پوری کرنے میں دھت عیار و مکار طبقہ پہلی مرتبہ سہما معلوم دیتا ہے کہ کہیں یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔ خاکسار نے نئی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب والے اجلاس کی جو جھلکیاں ٹی وی پر دیکھیں، اس میں روایتی مبارک سلامت اور عوامی طاقت کا دباؤ بڑھتا معلوم ہوا۔ اسی طاقت سے تو گڈ گورننس جنم لیتی ہے جو عوام کو اپنی بہبود کے لیے مطلوب ہے۔ پاکستان کے گھناؤنے سیاسی نظام میں کتنا اچھا لگا۔ جب سفید چادر میں ملبوس بلوچستان کے بزرگ سیاست دان محمود خان اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اپنے مختصر خطاب میں پاکستان کو دلدل اور اندھیروں سے نکالنے اور آنے والی نسلوں کو سنوارنے کا ناقابل بحث حل پیش کردیا۔ فرمایا ”تمام ممبران اسمبلی نے نئے آئین کے دفاع اور اسے برقرار رکھنے کا حلف لیا ہے لیکن اگر یہ الفاظ بس ادا ہی کرتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، پھر یہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، کیونکہ ماضی میں بھی یہ حلف اٹھایا گیا، لیکن اس کے باوجود بار بار آئین توڑا گیا، اسے پامال کیا گیا، یہ نہ ہو کہ کل پھر کوئی جرنیل اس راستے پر چل پڑے۔ ایوان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے، جنہوں نے ماضی میں جرنیلوں کا ساتھ دیا۔ تمام ممبران اسمبلی کو چاہئے کہ ہم خدا کو گواہ بنا کر عہد کریں کہ اگر آئندہ آئین کی خلاف ورزی کی گئی اور اسے توڑا گیا تو کوئی رکن اسمبلی اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ نوازشریف میں صلاحیت اور حوصلہ بھی ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ وہ کام کریں کیونکہ اگر ہم نے اگلے پانچ سال میں نتائج نہ دیئے تو ملک میں جمہوریت رہے گی اور نہ آئین “۔
بابا اچکزئی نے کیسے دریا کوزے میں بند کیا؟ بلوچستان کے زیرک بزرگ نے آئین توڑنے والوں کی بات کی ہے تو اس کی خلاف ورزیوں کی بھی تلخ ترین تاریخی حقیقت یہ ہی ہے کہ ملک میں فوجی آمر بار بار آئین توڑتے رہے تو سول اور جمہوری کہلانے والی حکومتیں مکمل دیدہ دلیری سے اپنے اپنے ادوار میں آئین و حلف کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مرتکب ہوتی رہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ حتیٰ کہ فیملی فزیشن، ٹیلر اور دھوبی کی طرح ہمارے منتخب حاکموں نے فیملی جج بھی رکھنا شروع کردیئے تھے۔ قومی اسمبلی کے روایتی اجلاسوں کے برعکس اچکزئی صاحب نے کیا پتہ پھینکا کہ نہلے، دہلوں اور کوئین کنگز کی بارش ہوگئی۔ میاں نوازشریف کے ساتھ بیٹھے ان کے دست راست چوہدری نثار اٹھ کر بولے ”میں اپنی اور اپنی پارٹی کی آواز اچکزئی صاحب کی آواز میں ملاتا ہوں۔“ کیا خوب کہا کہ ”صرف اعلان اور حلف اٹھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، ہمیں چاہئے 65 سالوں کا تجزیہ کریں اور ہر ممبر خود احتسابی پیدا کرے۔ اگر میں خود سرخ لائٹ اور قطار توڑوں گا تو پھر آئین کی پاسداری کیسے ہوگی؟ چوہدری نثار کا یہ بیان تازہ ہوا کا جھونکا ہے، امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک میں عوام اور حاکموں کے لئے ایک ہی قانون ہوگا۔ سرکاری ملازم ٹیکس دیں گے تو صنعت کار اور بزنس مین بھی دیں گے اور اتنا دیں گے جتنا بنتا ہے۔ اب ٹیکس عملے کی کرپشن ختم ہوگی۔ حاکموں کے اربوں کے قرض معاف ہوں گے تو ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے نادہندگان بھی یہ حق حاصل کریں گے۔ گویا سب کے لئے قانون یکساں ہوگا جو آئین پاکستان کا تقاضہ ہے۔ الیکشن سے پہلے اقتدار کی باری مکمل کرنے والی پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم جو کروڑوں کا سرکاری کیش، ذاتی اکاؤنٹ میں رکھنے کے الزامات کی زد میں آئے نے کہا ”محمود خان اچکزئی نے جو باتیں کی ہیں سب ارکان ان سے متفق ہیں۔ ہم واضح طور پر عوام کے سامنے کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔“ خیر ہو اللہ بھلا کرے۔ آئین و حلف کو روندنے والے بھی صراط مستقیم پر۔ تحریک انصاف کے رہنما جناب جاوید ہاشمی نے کہا کہ ”ایوان میں کوئی بھی فرد ایسا نہ ہوگا جو اچکزئی صاحب سے اختلاف کرے۔“ لیکن ہاشمی صاحب کو یہ ضرور ماننا ہوگا کہ ایوان میں ایسے بہت تھے جو آئین کی بالادستی کا راگ تو صبح شام الاپتے لیکن انہوں نے اپنے ادوار اور سیاست میں جگہ بنانے کے لئے اس کی دھجیاں اڑائیں اور حاکم بنے تو اس کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔ اپنے خطاب میں جاوید ہاشمی کا ترقی کو جمہوریت اور آئین کی بالادستی سے مشروط کرنا ایک سائینٹفک حقیقت ہے۔ بشرطیکہ آئین کی بالادستی حقیقی معنوں میں ہو، صرف تشکیل حکومت بذریعہ انتخاب ہی نہیں۔ امراؤ جان ادا کے گھنگھروں کی جھنکار جیسی گفتگو کرنے والے تحریک انصاف کے ہی شاہ محمود قریشی نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ اچکزئی صاحب نے بہت سنجیدہ بحث چھیڑ دی ہے“ کڑی کمانی کا تیر چلا دیا کہا۔ ”آئین شکنی کا ایک کیس آج سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ایوان کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ پورا ایوان اس چبھتے سوال پر خاموش رہا۔ لگتا ہے کہ اس خاموشی سے کوئی بڑی خبر نکلے گی۔ عاقلوں، بالغوں اور نہ جانے کیا کیا کی جماعت ایم کیو ایم ڈاکٹر ستار فاروق آئین کے عملی اطلاق کی بات کر کے گیند ایوان خصوصاً دو روز میں قائد ایوان بننے والے جناب نوازشریف کی طرف لڑکھا دی۔ کیا خوب کہا کہ ”جمہوریت وہی ہے جسے عوام کی دہلیز پر پہنچایا جائے۔“ کہا ہی نہیں آئین کے حوالے سے یہ بھی بتا دیا کیسے؟ کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ قابل اطمینان ہے کہ میاں نوازشریف، انتخاب سے پہلے یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ تشکیل حکومت کے بعد گلی محلوں کو جمہوریت میں رنگنے کے لئے آئینی مدت کے مطابق بلدیاتی انتخاب کرائیں گے۔ اچھا کیا جو ڈاکٹر ستار فاروق نے ایوان میں میاں صاحب کی موجودگی میں یاد دہانی کرا دی ۔ جے یو آئی (ف) کے راہنما مولانا محمد خاں شیرانی کی بزرگی کا دبدبہ ہی بہت ہے، اوپر سے انہوں نے ہمارے سیکولر اور لبرل دوستوں کو ڈرانے والی باتیں شروع کردیں، فرمایا ”آئین کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے لیکن اسلامی نظریے کو برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ آرٹیکل 227 میں کہا گیا ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق کی جائے گی۔“ اصل میں ہمارے آزاد خیال صاحبان ”ذوق و شوق“ پر آئین کے اس تشخص سے اس لئے لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ وہ اس کا ترجمہ فقط کوڑے، سنگ باری، ڈی این اے ناقابل اعتبار اور حدود وغیرہ کے طور کرتے ہیں حالانکہ صحیح ترجمہ ہے ”حاکم رعایا برابر، حاکم کو کوئی استثنیٰ نہیں، احتساب، قاضی کا حکم سر آنکھوں پر، حاکم کے سامنے کلمہ حق کی مکمل آزادی، حاکموں پر جواب کی پابندی، سب کے لیے ایک قانون، فاضل دوسروں کے لیے، عوام کی فلاح و بہبود سادگی و مشاورت، اجتہاد اور اجماع امت۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے اس ترجمے سے بھی ڈر لگتا ہے تو پھر لبرل اور سیکولر دوستوں کو مشورہ ہے کہ وہ بحرہ روم میں اٹلی اور بحر الکاہل کے دور دراز جزیروں میں جا آباد ہوں، وہاں ان کے مطلب کی دنیا ہے۔ مزے کریں گے۔ ہماری جمہوریت اور آئین کا بیڑا غرق نہ کریں۔
بلوچستان کے ہی بزرگ رہنما اور سابق وزیراعظم جناب میر ظفر جمالی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا خوب کہا کہ جو انسان کے اندر ہے وہ تو اندر ہے لیکن جب ہم حلف اٹھاتے ہیں تو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اللہ کرے جمالی صاحب کا یہ سنہری فقرہ پورے ایوان کے پلے پڑگیا ہو۔
مسلم لیگ (ضیاء) کے رکن اعجاز الحق نے قوم کو ڈرونز حملے کی عادی قوم کو یاد دلایا کہ ایک بڑی قومی ضرورت، ملکی خودمختاری بھی ہوتی ہے ہمارا آئین و حلف اس کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اللہ کرے ایوان ان کی یاد دہانی کے بعد ڈرونز حملے کے حوالے سے اب کوئی پالیسی بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ جس کی پابندی پوری قوم بذریعہ ایوان و حکومت کرے۔اس کے علاوہ میاں نوازشریف کا بلوچستان کی تشکیل میں اختیار کیا گیا رویہ، میاں شہباز شریف کا بیان کہ ”ہم ماضی کی غلطیوں سے اپنے رویے تبدیل کر رہے ہیں۔ اور صدر زرداری کے حالیہ انٹرویو کے جواب سے یوں لگے کہ سامنے اوپر پو پھٹ رہی ہے۔
تازہ ترین