• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افتخار عارف نے تہران سے لکھا ہے ”میں فروغ فرخ زاد کی قبر پہ گیا تو ساری شاعرات، اپنا وطن اور ان کے مصرعے بہت یاد آئے“۔ مجھے یہ فقرہ بہت اچھا لگا۔ آپ کو سنانے کی وجوہات یہ بھی شامل ہے کہ کل سیاسی پارٹیوں کی منتخب خواتین کی فہرست دیکھی تو میری آنکھوں میں گویا سلائیاں پھر گئیں۔ پیپلزپارٹی میں تو ویسے ہی بہت کارکن اور محنتی خواتین نہیں تھیں مگر وہ کہ جنہوں نے کاکس بنایا تھا۔ عورتوں کے بارے میں زیادتیوں کے خلاف قوانین بنائے تھے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف قانون سازی کی تھی۔ ویمن کمیشن کو با اختیار بنایا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایسے چلایا کہ ورلڈ بنک سے بھی توصیفی سند حاصل کی۔ یہ سارے کام اس لئے گنوا رہی ہوں کہ بیشتر پنجاب سے تعلق رکھنے والی ممبر خواتین نے ان موضوعات میں روح پھونکی۔ ہر پارلیمنٹیرین سے الگ ملاقاتیں کی۔ راضی کیا اور یوں یہ بہت سا کام سر انجام پایا مگر اب کیا ہوا۔ عام انتخابات کے بعد، ہوتا یہ ہے کہ 4.5 ممبران کی شرح سے ایک خاتون ممبر منتخب کی جاتی ہے۔ ہر صوبے میں جتنے پارٹی ممبران ہوں اس شرح کے مطابق خواتین کو الیکشن کمیشن کو دی ہوئی فہرست کے مطابق نہ صرف منتخب کرلیا جاتا ہے بلکہ فائنل لسٹ الیکشن کمیشن کے حوالے کردی جاتی ہے۔ اب دیکھیں منظرنامہ کیا بنتا ہے۔ ن لیگ کی35خواتین ممبر منتخب ہوئی ہیں۔ جس میں پنجاب کی زیادہ ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی ایک بھی خاتون پنجاب کے کوٹے میں نہیں آسکی ہے۔ صرف سندھ کی خواتین ممبران نظر آرہی ہیں۔ اب میں تلاش کرتی ہوں شہناز وزیر علی کہاں ہے، مہرین انور راجہ کدھر گئیں۔ فرزانہ راجہ کو کہاں تلاش کروں اور یاسمین رحمن کیوں نظر نہیں آرہی ہیں۔ ادھر دیکھتی ہوں تو فریال تالپور، منتخب ہونے والی سندھی ممبر بھی ہیں اور خواتین کی فہرست میں بھی اول نمبر پر دکھائی دیتی ہیں۔ سارے سندھی گروپ میں ایک نفیسہ شاہ ہے، جس کاکس بنائی، عورتوں کیلئے کام کیا۔ جنرل سیٹ سے وہ بھی منتخب نہ ہو سکیں مگر چلو اتنا ہی سہی، مخصوص سیٹوں پر تو بالآخر آہی گئیں۔ ان کے ابا نے تو سندھ کی وزات اعلیٰ کا ٹھیکہ اس طرح لیا ہوا ہے جیسے بھٹو صاحب کی حکومت کے دوران جنرل رضا، وزارت خارجہ میں توسیع پہ توسیع لئے جاتے تھے۔ ہر دفعہ بھٹو صاحب بیزار ہوکر ان کے کاغذات پہ دستخط کردیتے تھے۔ میری سیاست فہمی دراصل ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پیپلز پارٹی بننے سے پہلے، چین کے ثقافتی انقلاب نہرسوئیز کے قومیائے جانے اور ویتنام کی جنگ کے دوران شروع ہوا۔ اگر یہ سیاست فہمی نہ ہوتی تو میں عبدالقادر حسن کی طرح پیپلز پارٹی کی پھوڑی پر نہ بیٹھی ہوتی کہ پارٹی نے یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ پنجاب سے اٹھنے والی پارٹی، پنجاب ہی میں دفن ہوجائے اور پھر منہ بھر کے شکایت بھی کی جائے کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے۔ کہیں بہادر شاہ ظفر کی کہانی تو کہیں یحییٰ خاں کی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ سمجھنے کی کوشش پھر بھی نہیں کی جارہی کہ متحدہ میں بابر غوری نے کیا کیا ہے اور پیپلز پارٹی میں ہر حکومتی کارندے نے پیٹ بھر کر نکمے بندے داخل نوکری کرنے کے علاوہ بقول ایک اخباری رپورٹر کہ ایک خاتون نے 6کروڑ روپے کے صوفے آرڈر کئے تھے۔ لوگ دیکھتے رہے اور 11مئی کو اپنی بے زبانی کو ووٹ کی زبان دے دی۔
خواتین میں سے صرف ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور فریال تالپور اپنے علاقائی تعلق کی بنا پر کامیاب ہوئیں، نئی ابھرنے والی پارٹی پی ٹی آئی ہے یہ بالکل 1970ء میں پیپلز پارٹی کی طرح ابھری ہے۔ پچھلے الیکشن میں تو بے نظیر کی ہمدردی کے ووٹ مل گئے تھے مگر اب تو پتھر نے بھی خون اگلا۔ ایک قومی پارٹی بس علاقائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ مجھے تو غرض تھی کہ ذہنی بالغ خواتین اسمبلی کے ایوان میں آکر خواتین کے حقوق کی بات کرتیں مگر جب ن لیگ کی فہرست بھی کھنگالی تو کہیں کسی کی بیٹی، کسی کی بیوی، کسی کی بہن سامنے کھڑی نظر آئیں۔ سیاسی حیثیت میں تو منتخب ہونے والی غلام بی بی بھروانہ اور سمیرا ملک ہی ہیں۔
کچھ خواتین نے منتخب ہونے کیلئے درخواست ہی نہیں دی۔ مثلاً عطیہ عنایت اللہ نے ممبر شپ کیلئے درخواست ہی نہیں دی۔ پوچھا۔ سبب بولیں کون کہاں سے اس بڑھاپے میں تلاش کرے میٹرک اور ایف اے کی سندیں، بہتر ہے چپ کرکے خاموش ہی رہو۔ عزت رہ گئی عطیہ کی۔ ورنہ ادھر تو کوٹہ ہی نہیں تھا۔ ادھر ماروی میمن جنرل الیکشن میں ہار گئی تو اس کو مخصوص نشستوں میں جگہ مل گئی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کاتو حق تھا اور اس کو سیٹ ملنی جائز بھی تھی۔ اس طرح مہتاب اکبر راشدی نے جنرل الیکشن لڑا ہار گئیں اب صوبائی ممبر ہوگئی ہیں۔ چلو خوش بخت کے بعد مہتاب اور شیریں معروف لوگوں میں ہیں۔ اس طرح نفیسہ شاہ نے پچھلے برس ڈاکٹریٹ کیا مگر ایک محکمہ NCHD ان کے سپرد کیا گیا۔ مزا نہیں آیا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بجٹ نہیں تھا، اس لئے چلا نہیں۔
اس طرح بہت سے محکمے بنتے ہیں، ختم ہوجاتے ہیں۔ نئی روشنی، تعلیم بالغان، این جی او سیکٹر میں بہت سے تعلیمی ادارے کھلتے ہیں۔ بجٹ ختم ہوتا ہے، اسکول بھی بند ہوجاتے ہیں۔ یہی حال بے شمار ووکیشنل سینٹر کا ہوتا ہے، کہیں بھی تسلسل دکھائی نہیں دیتا۔ اب جو ساری حکومتوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگلے نوّے دن کے اندر اندر لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کرائے جائیں گے۔ یہ دھیان رکھیں کہ عورتوں کی33 فیصد سیٹیں رکھی جائیں تاکہ بنیادی سطح پر بھی عورتوں کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جاسکے اور پالیسی بنانے میں اس طرح آپ خود بھی مصروف ہوں کہ معاشی اور معاشرتی دونوں سطح پر خود آگاہ بھی ہوں اور حکومت کی مجبوریوں کا احساس بھی ہو، جتنی بھی نئی ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ ان سے دست بستہ درخواست ہے کہ اسمبلیوں میں فیشن کیٹ واک نہ کریں، سادگی اور شائستگی کو اپنا شعار بنائیں۔ اسمبلی میں آنا شادی میں آنے کی طرح تقریب نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان کے آئین کو پڑھیں اور کمیٹیوں میں خواتین کیلئے بالخصوص ایسے اقدامات تجویز کریں کہ ان کو یاد رکھا جاسکے!
تازہ ترین